کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 15
میں شامل ہوسکتا ہے جبکہ اس بل کے ذریعے مدعی کے علاوہ چار گواہوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے، یہ بات بھی خلافِ اسلام ہے۔ مزید برآں اسلام کی رو سے زنا کی سزا محض زانی یا زانیہ کے اعتراف پر بھی دی جاسکتی ہے لیکن نئے مسودۂ قانون میں اس کو سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے، یہ بات بھی خلافِ اسلام ہے۔ دورِ نبوی میں کئی سزائیں گناہگاروں کے محض ذاتی اعتراف پر دی گئیں ، ایسی صورت میں مزید کسی بھی گواہی کی ضروررت نہیں ہے۔ یہ دونوں باتیں بھی صریحاً خلافِ اسلام ہیں ۔ اب ایک نظر اُن ترامیم پر بھی جوحدِ قذف آرڈیننس میں کی گئی ہیں : 12. جس طرح حد زنا آرڈیننس کی برتری دیگر قوانین پر ختم کردی گئی ہے جس کا تذکرہ پیچھے ۸ نمبرکے تحت گزر چکا ہے، اسی طرح تحفظ ِخواتین بل کی ترمیم نمبر ۲۸ نے حد قذف آرڈیننس ۱۹۷۹ء کی دفعہ نمبر۱۹ کو منسوخ کرکے دوسرے قانون پر اس کی برتری کو بھی ختم کردیا ہے جبکہ اسلامی قانون کی برتری کی منسوخی اسلام اور دستورِ پاکستان سے کھلا اِنحراف ہے۔ 13. قذف آرڈیننس ۱۹۷۹ء کی دفعہ نمبر ۱۴ لِعَان کے طریق کار کے بارے میں ہے جس کی دفعہ نمبر۳ کی روسے لعان کی کاروائی کو معطل کرنے والے مرد کو سزاے قید تجویز کی گئی ہے۔ اب تحفظ ِخواتین بل کی ترمیم نمبر ۲۵ نے اس دفعہ کو منسوخ کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ اگر شوہر بیوی پر لعان کی کاروائی شروع کرکے ، اسے مکمل نہ کرے تو بیوی معلق رہے گی، نہ تو لعان کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کروا سکے اور نہ ہی اپنا نکاح فسخ کرا سکے۔ اس بل سے ایک طرف خواتین کے تحفظ کی بجائے ان پر ظلم ہورہا ہے تو دوسری طرف اسلام کے تصورِ لعان کو بھی معطل کیا جارہا ہے۔ اسلام نے ایسے شوہر کو جو بیوی پر الزامِ زنا لگائے اور لعان کی کاروائی شروع کرلے، تواسے پابند کیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچا ہے تو پھر شرعی ضابطہ پورا کرے۔ اب مرد عورتوں پر الزام تراشی کرتے رہیں گے لیکن شرعی ضابطہ پورا نہیں کریں گے… کیا ایسی صورت میں بیوی کو معلق رکھنے سے تحفظ حاصل ہوگا یا وہ عدمِ تحفظ کا شکار رہے گی۔ ویسے بھی یہ صورت شریعت ِاسلامیہ سے متصادم ہے۔ ٭ ایک طرف توحد قذف آرڈیننس کی دفعہ۶ میں شق ۲ کا اضافہ کرکے کے قذف کے