کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 14
اس مضمون کے آخرمیں ’قانون کے اجرا کے طریقہ کار‘پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو معلوم ہوگا کہ شرعی سزا کے اجرا کے ضمن میں بھی ایسی قانون سازی عمل میں لائی جا چکی ہے کہ عملاً حد کی شرعی سزا دینا کسی صورت ممکن نہیں رہتا۔تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیے! 10. جیسا کہ پیچھے ذکر ہوچکا ہے کہ حدود اللہ میں کوئی ترمیم وتخفیف یا معافی نہیں دے سکتا۔ اسی لئے حد زنا آرڈیننس ۱۹۷۹ء کی دفعہ ۲۰ کی شق ۵ کے ذریعے حدود آرڈیننس میں درج جرائم کو ضابطہ فوجداری کے ان جرائم سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا جن میں صوبائی حکومت٭، صدر یا کرسی اقتدار پر موجود شخص معافی دے سکتا ہے۔لیکن حالیہ تحفظ ِخواتین بل کی ترمیم نمبر ۱۸ کے ذریعے حدود آرڈیننس کی اس شق کو حذف کردیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی ملزم قانونی گنجائشوں کی اس قدر لمبی چوڑی تفصیلات کے باوجود اس قدر’ بدقسمت‘ ہے کہ اسے حدود اللہ کے تحت سزا سنا ہی دی گئی ہے تو زیادہ پریشانی کی بات نہیں ، کیونکہ عام جرائم کی طرح اس کی سزا کو کوئی بھی مجاز اتھارٹی معاف کرسکتی ہے۔ ایک طرف حدود اللہ میں ترمیم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اختیار نہیں تو دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ اُمتی بے دھڑک آپ سے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس بات کو خلافِ اسلام سمجھنے یا قرار دینے کے لئے کسی گہری سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں ! یہ تو حدود اللہ کی معافی کی بات ہے، اگر معاملہ زنا بالجبر کا ہے جو پہلے ہی تعزیراتِ پاکستان میں شامل کیا جاچکا ہے تو وہاں آئین پاکستان کی شق ۴۵ کے تحت صدر کو سزا میں ترمیم یامعطلی اور معافی کی کھلی گنجائش موجود ہے۔ غور کریں کہ اس سے زنا بالجبر کی سزا میں اضافہ کیا جارہا ہے یا اس میں تخفیف ہورہی ہے کہ اس کے مجرم کو معافی ملنے کا امکان پیدا کردیا گیا ہے؟ 11. تحفظ ِخواتین بل ۲۰۰۶ء کی ترمیم نمبر ۸ ملاحظہ فرمائیے: (۲۰۳/الف) ’’عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طورپر مستغیث اور جرم کیلئے ضروری دخول کے فعل کے کم ازکم چارچشم دید مسلمان بالغ مرد گواہوں کی حلف پرجانچ پڑتال کرے گا۔‘‘ اسلام کی رو سے فعل زنا کے گواہ مستغیث کے علاوہ چار نہیں ہوتے بلکہ وہ خود بھی گواہوں ٭ ضابطہ فوجداری ۱۹۰۸ء کے باب نمبر۲۹ میں نہ صرف صدرِ مملکت بلکہ صوبائی حکومت کو بھی سزاؤں میں تخفیف یا ا ن کی تبدیلی کا اختیار دیا گیا ہے۔