کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 13
اس کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جائے کہ ہم نے شرعی سزائیں منسوخ نہیں کیں اور زنا کی ۵ سال سزا کا دعویٰ کرنے والوں کو جھٹلایا جائے کہ ایسا نہیں بلکہ اس کی تو شرعی سزا موجود ہے۔اسی لئے زنا کی نئی وضع کردہ سزا(۵سال قید) کوبل کے اُردو متن میں عمداً چھپا دیا گیا ہے اور پورے بل میں اس کا سراغ محض ترمیم ۹ کے جدول ہشتم کے ذریعے ملتاہے۔ شرعی نقطہ نظر سے یہ تینوں جرائم دراصل زنا ہی کی تین صورتیں ہیں ۔ ’زنا بالجبر‘ کے نام پر زنا کی بعض صورتوں کو شرعی سزاؤں سے نکال لینا خلافِ اسلام ہے۔ پھر ’زنا‘ کی تعریف ’’غیر منکوحہ سے رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کرنا‘‘سے مراد دراصل زنا بالرضا ہے جس کی سزا پانچ سال قید ہے۔ اب زنا کی تیسری یعنی شرعی سزا کو معطل رکھنے کے لئے حدود آرڈیننس کی برتری کی شق منسوخ کردی گئی ہے جس کے بعد زنا کی شرعی سزا کی حیثیت محض نمائشی رہ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک ہی جرم پر سزاؤں میں یہ تفاوت متضاد قانون سازی کو بھی جنم دے رہا ہے لہٰذا قابل استرداد ہے۔ مثال کے طورپرتعزیراتِ پاکستان میں مندرج زنا (بالرضا) کی رو سے شادی شدہ مرد کے زنا کی سزا محض ۵ سال قید ہے جبکہ حدود آرڈیننس کی رو سے اس کی سزا سنگساری ہے۔ دونوں سزاؤں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اب عملاً زنا کی سزا حدود آڑڈیننس کی بجائے تعزیراتِ پاکستان کے مطابق ہی ہوگی، البتہ دکھانے کے لئے شرعی سزا بھی حدود آرڈیننس میں موجود رہے گی لیکن اس کی برتر حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے جس کے بعد ایک جرم کے بارے میں دو مختلف نوعیت کے قوانین سامنے آگئے ہیں ۔ اب قانون دان حلقے اپنی ذہنی وابستگی، تربیت اورعلمی صلاحیت کی بنا پر تعزیراتِ پاکستان کو ہی اختیار کریں گے اورپورا نظام اور عدالتوں کی پریکٹس بھی اسی کو تحفظ دے گی اور جاری رکھے گی۔ مزید برآں بعد میں آنے والا قانون سابقہ قوانین پر اس اعتبارسے عملی فوقیت رکھتا ہے کہ نئے پیش آمدہ حالات میں پارلیمنٹ نے ا س قانون کو مناسب خیال کیا ہے، اِلایہ کہ سابقہ قانون میں برتری کی کوئی خصوصی شق موجو د ہو۔ بعض حضرات کے نزدیک اگر حدود قوانین کی برتری برقرار رکھی جائے تو اس سے اسلام دوست جج حضرات کے لئے شرعی سزا دینا ممکن ہوجاتا ہے، لیکن یہ محض سادہ لوحی ہے کیونکہ