کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 12
مذکورہ بالامنسوخی دستورِ پاکستان کے بھی خلاف ہے۔کیونکہ یہ ترمیم دستورِ پاکستان۱۹۷۳ء کی شق نمبر ۲۲۷/ اے سے بھی متصادم ہے جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’’تمام موجودہ قوانین کو اسلام کے احکام… جیسے کہ وہ قرآنِ حکیم اورسنت ِرسول میں بیان ہوئے ہیں …کے مطابق بنایا جائے گا۔ دستور میں جس طرح اسلام کے احکام کا حوالہ دیا گیا ہے، ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلام سے متصادم ہو۔‘‘ کتاب وسنت پرمبنی قوانین کی برتری کے خاتمہ کی مذموم کوشش اس حلف کے بھی مخالف ہے جسے پاکستان کا ہرصدر، وزیر اعظم، وفاقی وزرا، سپیکر ،ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینٹ، صوبائی گورنرز او رجملہ اراکین ِاسمبلی وسینٹ اپنے عہدہ کے آغاز میں اُٹھاتے ہیں ۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کے شیڈول ۳ میں اس حلف کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ’’میں حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں اسلامی نظریہ کے تحفظ کی ضرور بھرپور جدوجہد کروں گا جو کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔‘‘ قابل غور امریہ ہے کہ قرآن وسنت سے صریح متصادم ایسی قانون سازیوں کے بعد مملکت کے ان اہم ترین عہدوں پر فائز حضرات کیا اپنے حلف سے منحرف تونہیں ہوگئے؟ کیا ایسے بل کو منظور کرکے اُنہوں نے دستورِ پاکستان کی خلاف وزری کا ارتکاب تونہیں کیا اور سب سے بڑھ کر، قرآن وسنت کے فیصلوں کو نہ ماننے والے اللہ کے واضح فرمان کے مطابق کیا دائرۂ اسلام سے ہی خارج تو نہیں ہوگئے؟ … ان سوالات کا جواب قوم کو خودتلاش کرنا چاہئے!! 9. حدود اللہ کی برتری کی یہ دفعہ محض تبرک یا تقدس کے حصول کے لئے نہیں تھی بلکہ اس کی عملاً ضرورت تھی جس کے خاتمے کے لئے یہ سنگین اقدام کیا گیا ہے۔تفصیل ملاحظہ فرمائیے تحفظ ِخواتین بل کے بعدزنا کے بارے میں بیک وقت تین ضوابط وجود میں آگئے ہیں : 1. ’زنا بالجبر‘ سزا: موت یا ۲۵ برس قید (بحوالہ ترمیم نمبر۵) 2. ’زنا‘ سزا:زیادہ سے زیادہ ۵ سال قید (بحوالہ ترمیم نمبر۷ و ۹ کا جدول۸) یہ دونوں قوانین مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں رکھے گئے ہیں اور تیسرا حدود آرڈیننس میں : 3. ’زنا‘پربظاہر شرعی سزائیں ، شادی شدہ کو سنگساری اور کنوارے کو ۱۰۰ کوڑے+ جلاوطنی (حدود آرڈیننس کی دفعہ نمبر۵ کو بحال رکھنے کی بنا پر) آئیے غور کریں کہ ایک ہی جرم (یعنی’ زنا‘) کے لئے تین سزائیں رکھنے سے مقصد کیا ہے؟