کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 11
حدود آرڈیننس میں درج دیگر سزاؤں مثلاً سرعام فحاشی، برہنہ کرنا یا اقدامِ زنا وغیرہ کو بھی ختم کردیا ہے۔ نامعلوم اس سے عورتوں کو تحفظ دیا جارہا ہے یا ان کے خلاف جنسی جارحیت کی ترغیب دی جارہی ہے ؟ طرفہ تماشا ہے کہ اس ملک میں اقدامِ قتل کی سزا تو موجود ہے تو لیکن اقدامِ زنا کی کوئی سزا موجود نہیں جبکہ اسلام نے اگر زنا کو حرام قرار دیا ہے تو اس کے مبادیات اور اس کی طرف لے جانے والے مراحل بھی ممنوع کردیے ہیں ۔ سید المرسلین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اجنبی مرد عورت کی خلوت کو حرام قرار دیا (صحیح بخاری : ۴۸۳۲) بلکہ یہاں تک فرمایا : (( العینان تزنیان والیدان تزنیان والرِّجلان تزنیان ویحقّق ذلک الفرج أو یکذبہ)) (صحیح ابن حبان : ۴۴۹۶) ’’آنکھیں بھی زناکرتی ہیں ، ہاتھ او رپاؤں بھی۔ اور شرمگاہ اس (زنا) کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔‘‘ یعنی اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاتی یا ردّ کردیتی ہے۔ ایسے ہی دوسرے کے گھر میں جھانکنے پر اگر کوئی شخص اس کی آنکھ پھوڑ دے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنکھ کے ضیاع کو رائیگاں قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم: ۴۰۱۴) اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف زنا ہی اکیلا جرم نہیں بلکہ دوسروں کے حَرَم (قابل احترام جگہ یا خواتین) سے نظربازی کرنا بھی سنگین جرم ہے۔ 8. پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے بل میں خلاف ِاسلام شق یہ بھی ہے کہ اسکے ذریعے حدود اللہ کی دیگر قوانین پر برتری کو ختم کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ حدزنا آرڈیننس ۱۹۷۹ء کی شق نمبر۳ کے ذریعے ان قوانین کو دیگر تمام قوانین پر برتری دی گئی تھی جسے حالیہ بل کی ترمیم نمبر۱۲ نے ختم کردیا ہے۔ یہ اقدام بھی اسلام سے کھلا انحراف ہے کیونکہ قرآن کا واضح حکم ہے : ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء: ۶۵) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تیرے ربّ کی قسم،یہ لوگ کبھی بھی ایمان والے نہیں بن سکتے حتیٰ کہ آپ کے فیصلوں کودل وجان سے تسلیم نہ کرلیں ،پھر ان کے دلوں میں اس پر کوئی خَلش باقی نہ رہ جائے جو آپ نے فیصلہ فرما دیا ہے۔ اور یہ اس کو صمیم قلب سے تسلیم کریں ۔‘‘