کتاب: محدث شمارہ 305 - صفحہ 10
حکم کیونکر دے پاتے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زنا بالجبر کی سزا موت قرار دینا خلاف ِاسلام ہے۔ جن لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جبری زنا کی سزا بیان نہیں ہوئی، وہ سورۃ النور میں زنا کی سزاؤں کے بعد اسی سورہ کی اگلی آیات کو نظر انداز کردیتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے جبری زنا کی شکار عورت کو زناکی سزا سے مستثنیٰ کردیا ہے : ﴿وَمَنْ یُّکْرِھْھُنَّ فَاِنَّ اللّٰه مِنْ بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْم﴾ (النور: ۳۳) ’’اور جواِن خواتین پر زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبردستی کے بعد (ان خواتین کو)بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔‘‘ اسلام کی رو سے مجبور عورت کا محض یہ دعویٰ کرلینا کہ اس سے جبر ہوا ہے، اور اس دعویٰ کی قرائن سے تصدیق ہوجانا عورت کی بریت کے لئے کافی ثبوت ہے۔ ایسی صورت میں مجبور عورت کو زنا کے الزام میں سزا دینا، اور پولیس کااُ نہیں جیلوں میں ڈال دینا نہ صرف فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح خلاف ورزی بلکہ عدالت ِعالیہ کے فیصلوں اور وفاقی شرعی عدالت کے احکامات کی توہین کے مترادف ہے۔ ٭ زنا بالجبر کو ایک طرف تعزیرات میں ڈال کر اس کی شرعی سزا (حد) کا خاتمہ کیا گیا ہے تو دوسری طرف زنا کے شرعی نصابِ شہادت کو بدل کر زنا بالجبر کو عام قانونِ شہادت کے تابع کردیا گیا ہے جس کے بعد زنا بالجبر کے ملزم مرد کو سزا دینے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں رہی اور عورت بھی اس کی گواہ بن سکتی ہے۔ یہ امر بھی خلافِ اسلام ہے کہ زنا کے شرعی طریقۂ ثبوت کو بدل دیا جائے اور قرآنی آیات اور فرامین نبوی کے باوجود زنا کے سلسلے میں عورت کو گواہی کیلئے گھسیٹا جائے، مزید تفصیل کے لئے محدث کا شمارۂ اگست ملاحظہ کریں ۔ (صفحہ ۱۹) 7. تحفظ ِخواتین بل میں خلافِ اسلام امر یہ بھی ہے کہ اقدامِ زنا، مبادیاتِ زنا یا بوس وکنار وغیرہ کی تعزیرات / سزائیں منسوخ کردی گئی ہیں ۔جبکہ حدود آرڈیننس ۱۹۷۹ء میں نہ صرف ان جرائم کی سزائیں بھی مقرر کی گئی تھیں بلکہ اس کی دفعہ ۲۰ کی شق اوّل میں یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ اگر عدالت کو بعض دیگر ایسے چھوٹے موٹے جرائم کا علم ہوجائے جو اس کے دائرۂ اختیار میں ہوں تووہ ان کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ لیکن موجودہ بل نے نہ صرف اس دفعہ۲۰ بلکہ