کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 96
جا سکتا ہے کہ سیکولرزم نے چونکہ معاشرے کو شخصی Personalاورپبلک لائف(Public life) میں تقسیم کررکھا ہے، ایسے معاشروں میں پبلک لائف میں تو اکثر وبیشتر اچھے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاً دیانت داری، انسانی حقوق، قانونی جبر کا خاتمہ، رشوت کا انسداد وغیرہ بلاشبہ یہ باتیں مغرب کی پبلک لائف کا روشن پہلو ہیں جنہیں ہمیں سیکھنا چاہئے (اوریہی تمام چیزیں دین اسلام میں کامل اور اکمل صورت میں بھی موجود ہیں)جبکہ اپنی شخصی زندگی میں مغربی انسان عیاشی میں پڑا ہوا ہے جن میں زناکاری، اختلاطِ مردوزن، جوا اور شراب وغیرہ قابل ذکر ہیں ، یہ چیزیں ان کے تنزل کا سبب ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مغربی معاشرے کی نقالی میں یہی چیزیں سرفہرست ہیں ۔ نیزمغرب تہذیب اورتمدن کا التباس پیدا کرتے ہوئے اپنی تہذیب کا تعارف تو اپنے تمدن کے روشن پہلووں سے کراتا ہے لیکن عملاً اپنی تہذیب کے گندے پہلووں کوہی مشرق میں برآمد کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مغرب نے اپنی گندی تہذیب کو پھیلانے کے لئے میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے اور میڈیاپر یہود کی اجارہ داری کا ہی نتیجہ ہے کہ عیسائی اوریہودی جو ماضی میں ہمیشہ باہم جھگڑتے رہے ہیں کیونکہ عیسائی عقیدہ کی رو سے حضرت عیسیٰ کو سولی دینے والے یہودی ہیں ، لیکن میڈیا کے بل بوتے پر اسلام کو ایک مشترکہ دشمن گردانتے ہوئے آج وہ آپس میں متحد ویکجان بنے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کو بھی اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ (Media) کو بھر پور استعمال کرنا چاہئے۔ ٭ جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) کے شیخ التفسیر مولاناعبدالسلام ملتانی کی دُعا سے یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ ٭ یکم مئی 2006ء کے روزنامہ نوائے وقت اور انصاف میں اس مذاکرے کی تفصیل کوریج شائع ہوئی ۔