کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 8
’’روزِ قیامت ایک مؤمن کے ترازو میں حسن خلق سے بھاری کوئی اور چیز نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ فحش اور بے ہودہ گو آدمی کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اور فرمایا: ’’جس کااللہ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے ،وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے۔ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے اور جس کا اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان ہے اسے چاہے کہ بھلی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔‘‘ (بخاری: ۵۵۵۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مؤمنوں میں ایمان میں سب سے زیادہ کامل وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے اور تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اخلاق میں بہتر ہے۔‘‘ (جامع ترمذی: رقم ۱۰۸۲ ’صحیح‘ ،صحیح ابن حبان: ۱۷/۳۴۵) فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( من لا یرحم الناس لا یرحمہ اللّٰه )) (متفق علیہ، صحیح مسلم :۴۲۸۳) ’’جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتے۔‘‘ ٭ اور اسلام نے دوسروں پر ظلم کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے : ﴿وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ﴾ (البقرۃ: ۲۷۰) ’’اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔‘‘ (( إن اللّٰه لیملي للظالم فإذا أخذہ لم یفلتہ ثم قرأ:﴿وَکَذٰلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُریٰ وَھِيَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہٗ أَلِیْمٌ شَدِیْدٌ﴾ (متفق علیہ، بخاری :۴۳۱۸) ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں ۔پھر جب پکڑتے ہیں توکوئی اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ مجید کی یہ آیت پڑھی: ’’اور تیرا ربّ جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑا ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔ فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔‘‘ انسانیت کو ظلم سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔چوری، ڈاکہ، اغوا جیسے انسانیت سوز جرائم کو حرام قرار دیا اور ان پر سنگین سزائیں تجویز کیں ۔