کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 7
ہیں ۔ (اور ان سے کہتے ہیں )ہم تمہیں صرف اللہ کے لئے کھلا رہے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اورنہ کسی شکریہ کے امیدوار ہیں ۔‘‘
٭ پسماندہ اور محروم افراد ِمعاشرہ کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْھَرْ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ وَأمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ﴾
’’یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو۔‘‘ (الضحیٰ: ۹تا ۱۱)
اور فرمایا:
﴿لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَجْوٰھُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوْفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَلِکَ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰه فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (النساء:۱۱۴)
’’لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ وخیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لئے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لئے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا کے لئے ایسا کرے گا، اسے ہم بڑا اَجر عطا کریں گے۔‘‘
٭ عدل انصاف کا قیام جو انسانی معاشرہ کیلئے امن کا ضامن ہے،کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿إنَّ اللّٰه یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الأَمٰنٰتِ إِلٰی أَھْلِھَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ إنَّ اللّٰه نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ إنَّ اللّٰه کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾
’’مسلمانو! اللہ تہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے حوالے کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء :۵۸)
٭ معاشرہ میں محبت وبقائے باہمی کے قیام کے لیے حسن اخلاق کی اہمیت مسلم ہے۔اللہ تعالی نے ﴿وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:۴)’’اور بلا شبہ تم اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہو۔‘‘ میں حسن اخلاق اور کئی دیگر صفات کو ہادی انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایاں وصف کے طور پر اس لیے ذکر فرمایاتاکہ ہم باہمی لین دین میں ان صفات کو سامنے رکھیں ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(( ما من شیئ أثقل في میزان المؤمن یوم القیمۃ من خُلُقٍ حَسَنٍ وإن اللّٰه لیبغض الفاحش البذي)) (سنن ترمذی: رقم ۱۹۲۵،حسن صحیح )