کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 43
٭ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی یہ فہرست پیش فرمائی ہے: صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جبکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے دونوں طرح کے اقوال منقول ہیں ۔ اس کے بعد عکرمہ، طاؤس، محمد بن اسحق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی رحمہم اللہ، بعض مالکی اور بعض حنفی جیسے محمد بن مقاتل رحمۃ اللہ علیہ اور بعض حنابلہ۔ (أعلام الموقعین مترجم: ص۸۰۳) اس بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب کیاہے؟ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق ان سے دو روایتیں منقول ہیں : ایک تو وہی جو مشہور ہے اور دوسری یہ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاقِ رجعی ہوتی ہے جیسا کہ محمد بن مقاتل نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ (إغاثۃ اللہفان:ج۱/ ص۲۹۰) ٭ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباري میں تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی جو فہرست دی ہے، وہ حسب ِذیل ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور غنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مسلک کو قرطبہ کے مشائخ کے ایک گروہ، مثلاً محمد بن تقی بن مخلد او رمحمد بن عبدالسلام خشنی وغیرہ سے نقل کیا ہے اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اصحاب، مثلاً عطا، طاؤس اور عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے۔(فتح الباری: ج۹ /ص۳۶۳) ٭ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ طلاق طلاق کے پیچھے واقع نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔‘‘ (نیل الاوطار: ج۴ /ص۳۵۵) ٭ نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اور یہ مذہب (تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا) ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ابن اسحق، عطا ، عکرمہ اور اکثر اہل بیت کا ہے۔ اور تمام اقوال میں یہی سب سے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ (الروضۃ الندیۃ:ج۲/ ص۵۰) ٭ علامہ عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاري میں کہا ہے کہ طاؤس رحمۃ اللہ علیہ ، ابن اسحق رحمۃ اللہ علیہ ، حجاج بن ارطاۃ رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ، ابن مقاتل اور ظاہریہ اسی کے قائل ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دے تو ایک ہی واقع ہوگی۔ (عمدۃ القاری:ج۱۰/ ص۲۳۳)