کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 4
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ عقائد، معاملات، عبادات، نکاح و طلاق، فوجداری قوانین، عدالتی احکام، خارجی اور داخلی تعلقات جیسے جملہ مسائل کا جواب اُصولاً یا تفصیلاًاس میں موجود ہے۔ ان مسائل کے بارے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود انصاف پسند غیر مسلموں نے بھی اسلامی شریعت کے اس امتیاز کو تسلیم کیا ہے۔ قرآنِ کریم اس حقیقت پر یوں مہر تصدیق ثبت کرتا ہے:
﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ:۳۰)
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسندکیا ہے۔‘‘
٭ انسان کا اپنے ربّ کے ساتھ کیا تعلق ہونا چاہئے؟ اس کے بارے شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا کسی کے سامنے سرِ عبادت نہ جھکایا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَآیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ:۲۱)
’’اے لوگو! اپنے اس ربّ کی بندگی اختیار کرو جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ، ان سب کاخالق ہے، تاکہ تم (جہنم کی آگ سے بچ سکو)۔‘‘
٭ یہ اسلامی شریعت ہی تھی جس نے انسان کو سابقہ مذاہب کی پھیلائی ہوئی خرافات و توہمات سے نکلنے اور عقل و فطرت کے دلائل کی طرف رجوع کرنے کی تعلیم دے کر دلیل کی اہمیت کو اجاگر کیا۔فرمانِ الٰہی ہے :
﴿قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ ( البقرۃ : ۱۱۱)
’’اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔‘‘
٭ یہودیت و نصرانیت کے برعکس اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ وہ گذشتہ تمام انبیا پر ایمان کو لازم قرار دیتا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ آمَنَ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِہِ