کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 34
ساتھ ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم میں ۴۰ مقامات پراللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اگر اب بھی کسی کوسمجھ نہ آئے کہ مقامِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ دماغ میں خلل ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ اور آپ کی حیثیت مبہم نہیں ۔اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں نبی اور رسول ہیں ، شارح اور شارع ہیں ؛ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطاع بھی ہیں جیسے اللہ کی اطاعت فرض ہے ویسے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فرض ہے۔
رسول اللہ بحیثیت حَکم اور قاضی
اس کے علاوہ آپ قاضی بھی ہیں بلکہ اس کائنات کے قاضی القضاۃ ہیں یعنی قاضی بھی ایسے کہ اس سے بڑھ کر کوئی قاضی نہیں اوراس کے فیصلے کوچیلنج نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جہاں چیلنج کرناہے، اسی نے تو انہیں قاضی بنایاہے۔ اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم حَکم بھی ہیں جب تک امام الانبیاء کوحَکم اور فیصل نہیں مانا جائے گا،اس وقت تک امام الانبیا پر ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء:۶۵)
’’تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مؤمن نہیں ہوں گے۔‘‘
مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بارے میں دل کے اندر ملال کی بھی اجازت نہیں بلکہ دل کے اندر کسی قسم کی تنگی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر آپ حَکم اور فیصل بھی ایسے ہیں کہ ان کے فیصلہ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی بولنے کی اجازت نہیں ہے:
﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰه وَرَسُوْلِہٖ ۔۔۔﴾ (الحجرات :۱)
’’مؤمنو! کسی بات کے جواب میں اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اُٹھا کرو۔‘‘
یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جوآپ کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتا، اس کواللہ تعالیٰ نے منافق کہاہے اور مؤمن وہی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کومن وعن مانتاہے: