کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 3
اُنہیں ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا۔پوپ کا مینوئل دوم کے ان فقروں کو اپنے خیالات کی تائید میں پیش کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ شعوری طور پر اُنہیں صحیح سمجھتے ہیں ۔ دنیا بھر میں شدید احتجاج کے بعد پاپاے روم کی طرف سے جس انداز سے معافی مانگی گئی اور ان کی تقریر کو غلط سمجھنے کا جو بہانہ تراشا گیا، وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے ! ہر انصاف پسند محقق اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ کسی مذہب کے متعلق معلومات کے لئے اس کے مخالفین کے الزام کو حوالہ کے طور پر پیش کرنا علمی دیانت کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔ آج اسلام کے دو بنیادی ماخذ(Sourses)قرآن وسنت کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہیں اوران کی طرف رجوع کرنا بھی ہر ایک کے لئے ممکن ہے، ان کی موجودگی میں پوپ کا اسلامی نظریات کی تحقیق میں اسلام کے ایک کٹر مخالف کی بات کو پیش کرنا علمی بددیانتی کا مظہر اور غیر معروضی اندازِ تحقیق پر مبنی رویہ ہے۔ نیز غیر معتبر مصادر کی بنیاد پر باطل اتہامات کا تبادلہ انسانی مصالح کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ اس پس منظر میں نہایت ضروری ہے کہ دین اسلام کی اصل حقیقت کو واضح کیا جائے اور پوپ کے اسلام پر غلط اعتراضات و بہتانات کی قلعی کھولی جائے۔ ذیل میں اُٹھائے گئے اعتراضات کا فرداً فرداً جائزہ لیا جاتا ہے۔ پہلا اعتراض ’’دین ِاسلام نے کوئی ایسی نئی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو۔‘‘ یہ دعویٰ جھوٹ اور اسلامی تعلیمات سے جہالت پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہیں ۔ انسان کااپنے ربّ سے تعلق کیساہو ؟ انسان کا خود اپنی ذات اور دیگر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے، قرآنِ کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان تمام پہلوؤں پر ہر قسم کی رہنمائی موجودہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًَا لِکُلِّ شَیْئٍ﴾ (النحل:۸۹) ’’ہم نے یہ کتاب نازل کردی ہے جو ہر چیزکی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے۔‘‘