کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 28
آجائے اور اللہ ربّ العزت کی ہر وہ صفت جو انسان کو معلوم ہوجائے، اس صفت اور نام پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اور کسی ایک صفت اور اسم کا انکار اللہ ربّ العزت کے عمومی انکار کے مترادف ہے۔ اس اعتبار سے بھی ایمان مرکب ہے اور اس کا دائرہ بڑا ہی وسیع ہے۔ کوئی انسان محض اللہ کے وجود یا اس کی اُلوہیت یا اس کے خالق ہونے پر ایمان لے آئے اور سمجھے کہ میں مؤمن ہوگیا ہوں تو یہ بات کافی نہیں ہے۔ جس قدر انسان اللہ کی ذات اور صفات کے بارے میں علم حاصل کرتاچلاجائے، اس علم کے مطابق انسان کا ایمان بڑھتا جائے، تب ہی اللہ ربّ العزت کی ذات پر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ کسی ایک نام یا صفت کے انکار کی بھی گنجائش نہیں ہے! ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم بالکل اسی طریقے سے سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ایمان ہے۔ امام الانبیا محمد بن عبد اللہ بھی ہیں ، نبی اللہ بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور آپ حضرات نے امام الانبیا کے کئی اور نام بھی پڑھے اور سنے ہوئے ہیں ۔ امام الانبیا کا ہر نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حیثیت کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ جس طرح اللہ ربّ العزت کی ذات پر ایمان کی تکمیل تمام اسماء وصفات پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتی اور اللہ کے ساتھ بندے کے تعلقات وسیع الجہت ہیں ، اللہ ربّ العزت کی اُلوہیت اور وحدانیت پر ایمان کے ساتھ اس کا ہر اسم اور صفت ایک تعلق کی نشاندہی کرتاہے، ان تمام تعلقات کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، ویسے ہی امام الانبیا پر ایمان ہے۔ ہمارا تعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وسیع الاطراف ہے، ہر زاویے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کریں گے تب ہی امام الانبیا پر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ ورنہ محمد بن عبد اللہ کو تو ابوجہل، عتبہ اور شیبہ سب ہی مانتے تھے بلکہ الصادق الأمین بھی مانتے تھے، لیکن ان کی بات نہیں چل سکی، جب تک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی حیثیتیں ، جتنے مقامات ومراتب کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کئے گئے ہیں ، اللہ ربّ العزت نے جس اعتبار سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کروایا ہے، ایک ایک بات پر یقین نہ کیا جائے تب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، ورنہ جزوی ایمان ہوگا، کلی نہیں !