کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 25
شخصیات، دینی شعارات اورعبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کو ایک مسلسل اور مذموم روایت بنالیا گیا ہے، کبھی مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کی مثل خود ساختہ قرآن (مثلاًفرقان الحق وغیرہ) تیار کرکے بڑے پیمانے پر پھیلائے جاتے ہیں اور کبھی معاذ اللہ قرآنِ عظیم کو ہی باتھ روم اور ٹوائلٹ میں بہا نے کی جسارت کی جاتی ہے۔ کبھی اسلامی شعار’ حجاب‘ کے خلاف دنیا کے مختلف ملکوں میں تحریکیں اُٹھتی ہیں تو کبھی داڑھی کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کو طنز واستہزا کی بھینٹ چڑھانا اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا عالمی میڈیا کا معمول بن چکا ہے۔ میرے خیال میں رواداری اور باہمی احترام کا یہ سبق دیگر مذاہب کو بھی دیا جانا چاہئے !!
جنابِ صدر!
دنیا آج بے چینی اور بدامنی کا شکار ہے۔ ان حالات میں مذاہب کو امن وسکون کے قیام کے سلسلے میں اپناکردار ادا کرنے کے لئے میدانِ عمل میں اُترنا چاہئے۔ سیکولر دانشوروں کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا میں بے اطمینانی مذاہب کی پیدا کردہ ہے لیکن یہ محض الزام تراشی ہے۔ دراصل انسان کو اللہ سے کاٹ کر مادّیت اور حرص وہوا کا بندہ بنادینے سے دنیا میں بے اطمینانی اور بے سکونی پیدا ہوئی ہے۔ تمام مذاہب محبت اور رواداری، انسانیت، اللہ کی بندگی، قربانی اور اخلاقِ کریمانہ کی دعوت دیتے ہیں ۔ اسلام جو اللہ کا آخری دین ہے، اس کابنیادی پیغام ہی ربّ ذوالجلال کی بندگی اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرلینا ہے۔ ’اسلام‘ کا لفظی مطلب ہی ’امن وآشتی‘ ہے، اس کے باوجود اسلام کو دہشت گردی کے الزام سے متہم کیا جاتا ہے۔
انسان کا اپنے خالق کو بھلا دینا دنیا میں بے اطمینانی،بے چینی اور باہمی اختلاف کا بنیادی سبب ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کے اجتماعی معاملات اور ریاستی اُمور کواللہ کی رہنمائی سے نکال کر اپنے جیسے چند انسانوں کے ہاتھ میں دے دینا مسائل کی جڑ ہے۔ اہل کتاب اور اسلام کے علمبرداروں کے لئے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ مل جل کر مشترکہ اہداف کے لئے کام کریں اور لوگوں کو اپنے جیسے انسانوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے٭ کی مشترکہ
٭ اہل نجران کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مراسلہ میں یہ دعوت دی: ((فإني أدعوکم إلی عبادۃاللّٰه من عبادۃ العباد إلی عبادۃاللّٰه وأدعوکم إلی ولایۃ العباد من ولایۃ العباد)) (دلائل النبوۃ از بیہقی: ۲۱۲۶)