کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 24
(( أن تؤمن باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ)) [1] اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے بنیادی ارکان میں اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، اللہ کی کتب پر ایمان، سابقہ رسولوں پر ایمان، یومِ آخرت پر ایمان اور اچھی وبری تقدیر پر ایمان شامل ہیں ۔یہاں چند باتیں غور طلب ہیں : 1. اسلام کے یہ تمام ’ارکانِ ایمان‘ یہودیت وعیسائیت میں بھی موجود ہیں جن میں بعض تصورات تو انتہائی قریب ہیں مثلاً فرشتوں ، قدر وقضا اور یومِ آخرت پر ایمان اور بعض میں جزوی اشتراک پایا جاتا ہے مثلاً اللہ، رسولوں اور کتابوں پر ایمان۔ اس سے ان مذاہب کی مشترکہ ایمانی اساسات کا پتہ چلتا ہے۔ 2. اسلام کی رواداری کا یہ عالم ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ ، موسیٰ علیہم السلام اور تمام پیغمبروں کے علاوہ ان کی کتابوں انجیل، توراۃ اور زبور وغیرہ کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان نہ لایا جائے، مسلمانوں کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیفہ ہدایت(قرآنِ کریم) پر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں اور وہ ان کو یہ احترام دینے پر آمادہ ہیں ؟ 3. ہمارا نکتہ اختلاف یہ ہے کہ اسلام یہودیت وعیسائیت کو الہامی مذاہب تو مانتا ہے لیکن وہ شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اسلام کی آخری اور حتمی شکل قرار دیتا ہے۔جس کے علمبردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی پیشین گوئی ان دونوں مذاہب کی مقدس کتب میں بھی موجود ہے۔ فی زمانہ بین المذہبی مکالمہ کے فروغ اور مذہبی رواداری پر بہت زور دیا جاتا ہے اور ہمارے محترم مہمان بھی اسی نظریے کے اہم علمبردار ہیں ۔ میں یہاں یہ سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ رواداری کا یہ سبق اسلام کو ہی دیا جانا چاہئے یا دیگر مذاہب کے علمبرداروں کو بھی آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ اسلام کی مقدس شخصیات اور معزز شعارات کو نشانہ بنانے سے احتراز کریں ۔ میں دیگر مذاہب کے بارے میں اسلام کی تعلیمات اور غیرمسلموں سے حسن تعلقات کا تذکرہ ابھی کرچکا ہوں ، ماضی اور حال میں کبھی بھی مسلمانوں نے کسی قوم کی مذہبی
[1] حدیث ِجبریل علیہ السلام… صحیح مسلم : ، رقم ۹