کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 22
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غیرمسلموں سے محبت، احترام اور رواداری سے بھری پڑی ہے۔ ایک بار آپ کے سامنے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے پوچھا کہ غیرمسلم کے لئے ایسا احترام کیوں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’کیوں ، کیا وہ انسان نہیں ہیں ؟‘‘[1]کسی اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں سے ظلم اور ناانصافی کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ کو غیرمسلموں کے حقوق کے محافظ قرار دے کر ان کے معاشرتی تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’جس کسی نے کسی معاہدپر ظلم کیا، یا اس پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالا تو قیامت کے روز میں اس غیرمسلم کے حقوق کے لئے اس سے لڑوں گا۔‘‘[2] جناب صدرِ مجلس! اسلام اپنی اساس اور بنیاد کے اعتبار سے ہی امن وآشتی اور محبت وشفقت کا علمبردار مذہب ہے۔ مذہبی رواداری کی اس سے بڑی اورکیا بنیاد ہوسکتی ہے جو قرآنِ کریم میں ہے کہ ’’مذہب قبول کرنے کے معاملے میں کوئی جبر گوارا نہیں ۔‘‘[3]غیرمسلموں کے بارے میں اسلام کی شاندار تعلیمات ایسی ہیں جن کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں نے ان احکامات کی پاسداری میں غیرمسلموں سے حسن سلوک کی درخشندہ روایات قائم کیں ۔ جملہ مؤرخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں غیرمسلموں کو مسلم خلفا کی طرف سے مذہبی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس امر کا پابند کیاکہ وہ دوسروں کے مقدس مقامات اور مذہبی شخصیات کا احترام کریں ۔[4] اسلام نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غیرمسلموں کی عبادت
[1] صحیح بخاری: حدیث نمبر ۱۲۲۹ [2] ألا من ظلم معاہدا أو انتقصہ،أو کـلَّفہ فوق طاقـتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یوم القیمۃ 9 (سنن ابو داؤد: ۲۶۵۴) [3] قرآنِ کریم کی آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿لاَ إِکْرَاہَ فِيْ الدِّیْنِ﴾ (البقرۃ:۲۵۶) [4] آیت ِ کریمہ ہے ﴿وَلاَ تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ ﷲِ فَیَسُبُّوْا ﷲَ … ﴾ (الانعام :۱۰۸)