کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 17
﴿کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ﴾ (ہود:۱) ’’یہ کتاب ہے جس کی آیات پختہ حقیقت پر مبنی اور حکیم و خبیر ذات کی طرف سیمفصل ارشاد ہوئی ہیں ۔‘‘ پورے نظامِ عالم میں حکمت ِخداوندی کی یہ کار فرمائی ارادہ وعقل کے مابین ربط کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے!! نواں اعتراض ’’مسلمانوں کے نزدیک اللہ پر لازم نہیں ہے کہ وہ ہمارے لئے حقیقت کو واشگاف کرے۔‘‘ جبکہ اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر احسان اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے راہِ حق کو صاف صاف واضح کردیا ہے اور راہِ مستقیم کی واضح نشاندہی فرما دی ہے اور اُنہیں گمراہی سیبچنے کا حکم دیا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے : ﴿کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰه آیَاتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ:۱۸۷) ’’اسی طرح اللہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے، تاکہ وہ غلط رویہ سے باز آجائیں ۔‘‘ اورفرمایا: ﴿وَمَا کَانَ اللّٰه لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ ھَدَاھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ مَا یَتَّقُوْنَ﴾ ’’اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ کن کن چیزوں سے بچنا چاہئے۔‘‘ اورفرمایا: ﴿سَنُرِیْھِمْ آیَاتِنَا فِيْ الآفَاقِ وَفِيْ أَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ﴾ ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہر چیز کا شاہد ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِھَا إِلَّا الْفَاسِقُوْنَ﴾ (البقرۃ:۹۹)