کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 14
یعنی انسان اگر ضد اور تعصب سے آزاد ہوکر عقل سے کام لیتے ہوئے ان آثار پر غور کرے تو وہ اپنے تئیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور پائے گا کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی خالق عظیم کے زیرانتظام ہے۔ وہ بلا شرکت غیرے اس پورے اختیار و اقتدار کا تنہا مالک ہے ، لہٰذا وہی درحقیقت خدائی اور اُلوہیت کا مستحق ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ عقل کا دائرۂ کارصرف ہمارے حواس اور وجدان پرمنحصر ہے۔ جذبات سے مغلوب ہونا، تعصبات کے زیر اثر آنا اور حالات سے متاثر ہونا وغیرہ جیسی آفات ہمیشہ سے عقل کے ساتھ لگی ہیں ۔ اور ان آفات سے بچنے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے وحی کو اس کا رہنما بنایاہے۔
چھٹا اعتراض
’’اسلام نے دعوت کے لئے کوئی تشفی بخش اور قابل تسلیم ڈھنگ اختیار کرنے کی بجائے دھونس اور تشدد کا اسلوب اختیار کیا ہے۔‘‘
یہ دعویٰ بھی نہ صرف قرآن و سنت کی واضح نصوص کے خلاف ہے بلکہ اس عملی تاریخ کے بھی منافی ہے جو اس سلسلہ میں مسلمانوں نے رقم کی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَا تُجَادِلُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ إلَّا بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُ﴾ (العنکبوت:۴۶)
’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو، مگر عمدہ طریقہ سے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿أُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِيَ أَحْسَنُ﴾ (النحل:۱۲۵)
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔‘‘
فرعون کے دربار میں دعوتِ حق پیش کرنے کے لئے بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو جویہ وصیت کی تھی:﴿ فَقُوْلَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشٰی﴾ ’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘اسے اس لئے قرآن کا حصہ بنا دیا کہ ہم اس حکیمانہ اُسلوبِ دعوت کی اقتدا کریں اور اسے کار گاہِ عمل میں لائیں ۔
اور ایسے ہی موقع کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: