کتاب: محدث شمارہ 304 - صفحہ 12
ضمانت حاصل تھی اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ اُنہیں تمام شہری حقوق میسر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے ہم مذہبوں کے ممالک میں جانے کی بجائے اسلامی مملکت میں رہنے کو ترجیح دی۔اور تاریخ نے یہ حسین نظارہ بھی دیکھا کہ جب دنیا کے پاس قرآن و سنت کی صحیح دعوت پہنچی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کے قولی دلائل اور براہین قاطعہ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اُنہوں نے اس سرعت کے ساتھ اسلام کے سایۂ عاطفت میں پناہ لی کہ صر ف ایک صدی کے اندر پوری دنیا کا چوتھائی حصہ مسلمان ہوگیا اور پھر اس کے بعد انڈونیشیا، ملائیشیا اور وسطی افریقہ کے پورے پورے علاقے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ اور آج جب کہ اسلام کی تلوار کند ہوچکی ہے او ریورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی ہے، تو کون سی وہ قوت ہے جو امریکہ او ریورپی ممالک کے لاکھوں انسانوں کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے پر مجبور کررہی ہے؟ بتائیے،آج کون سی وہ تلوار ہے جو اُنہیں اسلام قبول کرنے پر آمادہ کررہی ہے؟ تو در اصل دنیا میں بڑی تیزی سے اسلام کے پھیلنے کا حقیقی سبب اس کے وہ جامع دلائل اور رواداری پرمبنی تعلیمات ہیں جن پر یہ دین مشتمل ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ اُنہوں نے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے کوئی تفتیشی عدالتیں قائم کی ہوں ۔اس کے بالمقابل عیسائی اشرافیہ طبقہ نے اس سلسلہ میں جو کردار پیش کیا،وہ تاریخی حوالہ جات کے ساتھ صدیوں پر محیط ایک طویل تاریخ ہے جس کا ورق ورق عیسائیوں اور غیر عیسائیوں کے خون سے سرخ ہے۔ پانچواں اعتراض پوپ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’اسلام کی بعض تعلیمات عقل کے منافی ہیں ۔‘‘ یہ محض دعویٰ ہی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقلِ صحیح اور اسلامی احکام میں تضاد اور منافات ممکن ہی نہیں ہے۔ اسلام کے تمام احکام، انسانی مصالح اور انسانی عقلوں کے مطابق ہیں ۔ اسلام نے اپنے تمام احکام اور عقائد کے لئے ہر جگہ عقلی دلائل پیش کئے ہیں ۔ قرآنِ کریم تو بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ سارا دین عقل پر مبنی ہے۔ وہ انسان کو غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور افراد کی بجائے دلیل کی اہمیت کا قائل ہے۔قرآنِ مجید کی درج ذیل تصریحات اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں :