کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 9
سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کرے۔ ‘‘ (بل کا متن بحوالہ روزنامہ خبریں :۲۲/اگست۲۰۰۶ء) ان ترامیم کے اثرات و نتائج جاننے کے لئے اس مثال سے مدد لینا مناسب ہوگا: فرض کیجئے کہ ایک جگہ زنا کا وقوعہ ہوتا ہے، اوّل تو یہ پولیس کے دائرۂ عمل سے ہی باہر ہے کہ وہ ا س کی رپورٹ درج کرے۔اب ایسا شخص کہ جس کی عزیزہ سے زیادتی ہوئی ہے، وہ داد رسی کے لئے شکایت درج کرانے نکلتا ہے تو سب سے پہلے چا رگواہوں کو تیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے جو تحریری حلفیہ گواہی دے سکیں ۔ اس مرحلے پر عدالتوں میں سماعت وداد رسی کی ناگفتہ بہ صورتِ حال اور حد قذف کی لٹکتی تلوار سے ڈر کر کوئی آدمی اس مقصد کے لئے راضی ہی نہیں ہوگا۔ اُنہیں راضی کرنے میں ہی وہ شریف آدمی اپنی عزت کی مزید رسوائی تو کما لے گا جبکہ ابھی زنا کے حقیقی مجرموں کی سزا کا دور دور تک کوئی اِمکان نہیں ۔ اب دور دراز سے سفر کرکے مدعی اور چار گواہ سیشن عدالت میں جا پہنچتے ہیں تو وہاں چاروں گواہ حلفیہ تحریری بیان جمع کرائیں گے۔ اگر اس کے باوجود عدالت کو وقوعہ پر ہی اطمینان نہ ہوا تو ان گواہوں پر قذف کی سزا از خود لاگو ہو جائے گی، جہاں عدالت میں مزید کسی ثبوت یا ملزم کو اپنے دفاع کی گنجائش بھی نہیں ملے گی۔ بالفرض اگر عدالت ان کی گواہی سے مطمئن ہو کر مقدمہ داخل سماعت کرلیتی ہے، تب بھی مجرموں کو فکر مندی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ جرم قابل ضمانت ہے، اور عدالت کو ان کی یاسیت اور محرومی کا بھی پورا پورا احساس ہے۔ ان حالات میں عوام کو فیصلہ صرف اس بات کا کرنا ہے کہ اصل مجرم وہ ہے جس نے زنا کا ارتکاب کیا یا وہ جس نے اس کو دیکھنے کا گناہ کیا اور جس کی عزت سربازار پامال ہوئی ؟ زنا بالجبر کے جرم کا شکار تو خود عورت ہوتی ہے ، اس کے لئے چار گواہوں کی شرط کے بعد قانون کی مدد لینا کیونکر ممکن ہوگا۔یکم ستمبر کے اخبارات میں سلیکٹ کمیٹی کی یہ متفقہ ترمیم شائع ہوئی ہے کہ زنا بالجبر میں بھی چار گواہ لازمی کردیے جائیں ، اس کے بعد یہ بل زنا کی شکا رعورت پر صریح ظلم بن گیا ہے نہ کہ تحفظ خواتین بل۔ زنا بالرضا انگریز دور کے قوانین بحال ہونے کی بنا پر جائز، حدود قوانین تمام دیگر قوانین کے تابع اور زنا بالجبر میں بھی عورت کے لئے چارگواہ۔٭ نتیجہ واضح ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا کے لئے ہر طرح کی کھلی چھوٹ مل گئی!! ٭ سلیکٹ کمیٹی کا یہ موقف باہم متضاد ہے۔اگر چار گواہ اس لئے ضروری قرار دیے گئے ہیں کہ زنا بالجبر حد زنا کے زمرے میں آتا ہے تو پھر ترمیمی بل میں زنا بالجبر کی دفعات کو تعزیراتِ پاکستان میں کیوں ڈالا گیا ؟حدود آرڈیننس میں ہی کیوں برقرار نہیں رکھا گیا اور اگر اسے تعزیر سمجھا جاتا ہے تو پھر اس پر چار گواہ کا مطالبہ کیوں؟ یہ تو ان کے موقف کا تضاد ہے جس کی وجہ دراصل زنا کے جرائم کو ناقابل عمل بنانا ہے۔ البتہ اسلام کی رو سے زنا بالجبر یا بالرضا ، زنا کا مقدمہ حدود اللہ کے تحت ہی آتا ہے جیسا کہ زنا بالجبر کے حوالے سے ہمارا موقف گذشتہ شمارے میں تفصیلاً شائع ہوچکا ہے۔