کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 80
مساکین سے مراد اہل کتاب کے مساکین و فقرا ہیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کا جزیہ معاف کردیا اور بیت المال سے ان کا وظیفہ شروع کردیا۔‘‘ (ایضاً: ص۱۲۶)
٭ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ کو فتح کیا تو اہل حیرہ کو جو معاہدہ لکھ کر دیا، وہ کفالت عامہ میں مسلم اور غیر مسلم کی مساوات کی ایک دستاویز ہے۔ ملاحظہ ہو:
وجعلت لھم أیما شیخ ضعف عن العمل أو أصابتہ آفۃ من الآفات أوکان غنیا فافتقر وصاروا أھل دینہ یتصدقون علیہ طرحت جزیۃ وعیل من بیت مال المسلمین وعیالہ ما قام بدار ھجرۃ دارالاسلام(ایضاً: ص۱۴۴)
’’اور میں یہ طے کرتا ہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعیف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے یاآفاتِ سماوی و ارضی سے کسی آفت میں مبتلا ہوجائے یا ان میں سے کوئی مال دار محتاج ہوجائے اور اس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو ایسے تمام اشخاص کو جزیہ معاف ہے اور بیت المال ان کی اور ان کے اہل و عیال کی معاشی کفالت کا ذمہ دار ہے جب تک کہ وہ دارالاسلام میں مقیم ہیں ۔‘‘
یہ اور اس قسم کے دیگر نظائر سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت عامہ بلا تمیز مسلم و کافر سب کو شامل ہے۔