کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 8
کے اوقاتِ کار تھانوں کے برعکس کافی محدود ومختصر ہوتے ہیں ۔٭ 5. ترمیم نمبر ۹ کی ذیلی دفعہ ۵ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’اگر عدالت کا افسر صدارت کنندہ مدعی اور چار یا زائد گواہوں کے حلفیہ بیانات کے باوجود یہ فیصلہ دے کہ کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے تو وہ رِٹ کو خارج کرسکے گا۔‘‘ اب ترمیم نمبر ۲۲ کو پڑھئے کہ ’’عدالت کا افسر صدارت کنندہ مجرم کو بری کرتے ہوئے اگر مطمئن ہو کہ جرم قذف مستوجب ِحد کا ارتکاب ہوا ہے تو وہ قذف کا کوئی ثبوت طلب نہیں کرے گا اور حد قذف کے احکامات صادر کرے گا۔‘‘ ان ترامیم سے پتہ چلا کہ چار گواہوں کے بعد بھی زنا کے ملزم کی بریت جج کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور دوسری طرف مدعی پر از خود قذف کی سزا لاگو ہوجائے گی، اور اس صورت میں مدعی کے خلاف قذف کے کسی ثبوت یا عدالتی کاروائی کی ضرورت نہ ہوگی، محض جج کا ذاتی اطمینان ہی کافی ہوگا۔ ان ترامیم کی رو سے ایک طرف زنا کے ملزمین کو غیر معمولی تحفظ دیا جارہا اور ان کے خلاف رپورٹ کو مشکل تربنایا جارہا ہے اور دوسری طرف رپورٹ کرانیوالے پر قذف کی سزا لاگو کر کے اس کو بنیادی حقوق مثلاً ثبوتِ الزام کے لئے مطلوبہ گواہیوں اور عدالتی کاروائی وغیرہ سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصود ومدعا واضح ہے، ملزم کو ظالمانہ ترجیح کس بنیاد پر اور رپورٹ کرنے والے پر ظلم کیونکر؟یہ امتیاز اور ترجیح کیا اسلام اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ 6. ترمیم کے آخری پیرا گراف کے یہ الفاظ بھی محل نظر ہیں : ’’صرف سیشن کورٹ ہی مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ اور یہ جرائم قابل ضمانت ہیں تاکہ ملزم دورانِ ٭ بعض لوگ یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ دورِ نبویؐ میں بھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی عدالت) کے پاس سیدھا کیس لے کر جاتے تھے، نہ کہ پہلے پولیس کو رپورٹ کراتے اور وہی عدالت ان کا فیصلہ کردیتی۔ لیکن یہ لوگ صرف مطلب کی آدھی بات بیان کرتے ہیں جبکہ اسلام کی رو سے منصب ِقضا کو سنبھالنے والا تو قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور ان کا مکمل عالم ہوتا ہے۔اگر یہ لوگ انگریز کے عدالتی نظام کی بجائے شریعت کے ماہر علما کے ہاتھ میں ان جرائم کے مقدمات دے دیں تو ملک میں چند روز میں امن قائم ہوجائے، جیسا کہ سعودی عرب اور طالبان کے چند سالہ اقتدار میں چشم فلک یہ نظارہ دیکھ چکی ہے، طالبان پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن غیر مسلم بھی ان کے منشیات پر کنٹرول اور امن وامان کے قیام کو مسلمہ امرمانتے ہیں۔