کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 7
خلافِ قانون اور خلافِ عقل ہے۔ دورِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد واقعات میں زنا کی شکایتیں محض ایک شخص کے کہنے پر درج کی گئیں ۔ (دیکھیں محولہ بالا حدیث ِموطا ٔامام مالک) یوں بھی اسلام کی رو سے زنا کرنے والے مرد یا عورت کا اکیلا اعتراف بھی ان پر حد کی سزا قائم کرنے کے لئے کافی ہے، ان کے لئے چار گواہوں کی ضرورت نہیں ۔(صحیح مسلم: رقم۳۲۰۷) پھر اسلام میں زنا پر چار گواہیاں بھی مدعی کو شامل کرکے چار شمار کی جاتی ہیں ، نہ کہ اس کو نکال کر جبکہ ترمیم نمبر۹ کی ذیلی شق ۲ میں مدعی کے علاوہ مزید چار گواہیاں ضروری قرار دی گئی ہیں جو خلافِ اسلام ہے۔
یہ ترمیم خلافِ قانون اسطرح ہے کہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم مثلاً بغاوت یا قتل وغیرہ کے لئے پہلے مرحلہ پر ہی جرم کو مکمل ثابت کرنے کا تقاضا نہیں کیا جاتا، حدود قوانین کے خلاف ہی یہ امتیاز کیوں برتا جارہا ہے ؟
اور خلافِ عقل اس لئے کہ ہر جرم کی گواہیاں اس مرحلے پر لی جاتی ہیں ، جب جرم کا فیصلہ کرکے مجرموں کو سزا سنانا یا بری کرنا مقصود ہو، جبکہ FIR(فرسٹ انفرمیشن رپورٹ) میں تمام گواہیاں ضروری نہیں ہوتیں ۔یہ رپورٹ دراصل جرم کے خلاف پولیس کے کام میں معاونت ہے کیونکہ جرائم کی روک تھام اور اس کی خلاف ورزی کی شکایت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بجائے رپورٹ کرنے والے کو چار گواہیوں کا پابند کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس نے رپورٹ کرکے قانون کی مدد کی بجائے بذاتِ خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ پہلے اپنی صفائی پیش کرے۔گویا اس ترمیم کے ذریعے مجرموں کی حوصلہ افزائی اور مدعی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ یوں بھی اگر اس جرم کے عمل سے پولیس کو نکال دیا جائے تو معاشرے میں عصمت فروشی کے اڈّوں کی راہ میں حائل تھوڑی بہت رکاوٹ بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔
مزید برآں حدود قوانین کو پولیس کی رپورٹنگ سے نکال کر سیشن کورٹ کے دائرۂ عمل میں لانے سے بھی عملاً ایسے واقعات کی روک تھام او ررپورٹ انتہائی مشکل ہوجائے گی۔ پنجاب بھر کے ۳۴ اضلاع میں صرف ایک ایک سیشن عدالت ہیں جن میں اس طرح کے کیسوں کا اندراج عام شہری کے لئے انتہائی مشکل ہوگا۔ بعض اضلاع تو اس قدر وسیع وعریض ہیں کہ ایک رپورٹ درج کرانے کے لئے بعض اوقات پورا دن درکار ہوتا ہے۔ یوں بھی ان عدالتوں