کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 64
مصری: امیرالمومنین، میں نے اپنا پورا پورا بدلہ لے لیا۔ اے امیرالمومنین میں نے اس کو مار لیا جس نے مجھے مارا تھا۔
عمر رضی اللہ عنہ : اللہ کی قسم! اگر تو اس کو مارنا چاہے تو ہم نہیں چھڑائیں گے ،یہاں تک کہ تو خود چھوڑ دے اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، حالانکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے ہیں ؟‘‘ عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے معذرت کی اور کہا: مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مصری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اب تم جاسکتے ہو ،اگر دوبارہ کوئی اندیشہ ہو تو مجھے لکھو۔‘‘[1]
عدل و انصاف کی پوری تاریخ اس واقعہ پر انگشت بدندان ہے اور عقل محو تماشا لب ِبام۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت کا یہ مرکزی اُصول٭ تھا :
’’ألا إن أقواکم عندي الضعیف حتی آخذ الحق لہ وأضعفکم عندي القوي حتی آخذ الحق منہ۔‘‘ [2]
’’تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک اس وقت تک کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کرلوں اور تم میں سے کمزور ترین میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک میں اس کا حق اسے دلوا نہ دوں ۔‘‘
یہ تاریخ انسانی کا ایک سنہری دور تھا کہ انصاف رعایا کو گھر کی دہلیز پر میسر تھا۔ کوئی حاکم بھی اگر رعایا پر ظلم کرتا تو سزا سے بچ نہیں سکتا تھا ۔کتنا پرشکوہ ہوگا وہ دور کہ ایک علاقہ کا حاکم اور اس کا بیٹا ایک عام آدمی کے سامنے مجرم بن کر کھڑے ہیں ۔
ڈاکٹر یوسف قرضاوی مذکورہ واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں :
’’یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ لوگوں کو اسلام کے زیرسایہ اپنی عزت اور شرفِ انسانیت کا گہرا شعور حاصل ہوا۔ ایک ادنیٰ سا جرم بھی ان کے لئے نفرت انگیز تھا، حتیٰ کہ اگر کسی آدمی نے ناحق کسی کو تھپڑ مارا تو اسے بھی انتہائی برا اور قبیح جرم سمجھا جاتا تھا۔ایک طرف جاہلی تمدن تھاکہ جس کے
[1] التذکرۃ الحمویۃ: ۳/۲۰۹،۲۱۰ و أخبار عمر للطنطاوي:ص۱۵۵،۱۵۶
٭ یہ وہ الفاظ تھے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے اِرشاد فرمائے تھے۔ (مترجم)
[2] تاریخ دمشق: ۳۰/۳۰۲ و جمہرۃ خطب العرب: ۱/۱۸۰