کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 6
دعوت دینا چاہتے ہیں ؟ اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ایسے بل کا احترام کیا جائے یا اس کو ردّی کی ٹوکری کی نذر کیا جائے جیسا کہ متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی میں کیا ہے ؟
3. ان ترامیم کے ذریعے بڑی ڈھٹائی سے باہم متضاد قانون سازی کی جارہی ہے۔ کیونکہ سابقہ تعزیرات ِ پاکستان (در حقیقت تعزیراتِ برطانوی ہند)کی دفعات کو دوبارہ زندہ کردینے سے ایک طرف کنوارے یا کنواری کے لئے زنا بالرضا کی صورت میں بدکاری کی کوئی سزا نہیں رہے گی مگر دوسری طرف حدود قوانین میں ا ن کے لئے سزا موجود ہے۔ ایسے ہی تعزیراتِ پاکستان میں زنا بالجبر کے حوالے سے نئی دفعات کا اضافہ کرنے کے بعد زنا بالجبر کے مجرم کے لئے تو سزاے موت کا فیصلہ کیا جائے گا جبکہ حدود قوانین کی رو سے کنوارے زانی کومحض ۱۰۰ کوڑوں کی سزا ہونی چاہئے۔ گویا اس ترمیم کی بعض دفعات سے باہم متضاد قوانین جنم لے رہے ہیں ۔ اس تضاد کا ظالمانہ اورباغیانہ حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۳ کو منسوخ کردیا جائے تاکہ اس کے بعد حدود قوانین کی تعزیراتِ پاکستان پر کوئی برتری باقی نہ رہے۔ نتیجتاً حدود قوانین کی بچی کچھی دفعات کی حیثیت بھی متضاد او ردوہری قانون سازی کی بنا پر عملاً محض نمائشی رہ جائے گی اور بظاہر پاکستان میں حدود اللہ کا نام تو باقی رہے گا لیکن زنا قانوناً جرم ہی نہیں ہوگا۔
نیز یہ بات بھی خلافِ اسلام ہے کہ ایک طرف انگریز کے بنائے ہوئے ’ایکٹ نمبر۴۵ بابت ۱۸۶۰‘ کے قوانین یا انسانی قوانین کو تو ترجیح حاصل ہو، لیکن اللہ کے قوانین کو ایک اسلامی مملکت میں کوئی نمایاں جگہ نہ مل سکے۔ جبکہ قرآن کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول نہ کرنے والوں کا دین وایمان خطرے میں ہے۔ (دیکھئے سورۃ النساء: ۶۵)
نیز دستورِ پاکستان کی رو سے کتاب وسنت پاکستان کا سپریم لاء ہیں اور حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی طرز زندگی کو رواج دینے کے لئے اقدامات کرے۔ اس اعتبار سے یہ ترمیم دستور پاکستان کے بھی منافی ہے۔
4. مجوزہ ترمیم نمبر ۹میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ رپورٹ / شکایت کے مرحلے پر ہی مدعی کے علاوہ چار تحریری حلفیہ گواہیاں بھی جمع کرائی جائیں ۔ قانون کے اجرا کا یہ طریقہ خلاف ِاسلام،