کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 47
ہے اوراس کا روزانہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے۔ا سلام صرف مذہبی عقائد اور احکام تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ ہے جس کا اطلاق پورے مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ اس ریاست کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے چلانے والے مولوی ہوں گے۔ اسلامی ریاست تو وہ ہے جو اسلام کے اعلیٰ او ربلند اُصولوں کے تحت چلائی جائے گی۔‘‘ (نوائے وقت: سنڈے میگزین، ۱۸/ جنوری ۲۰۰۴ء) یاد رہے علامہ شبیراحمد عثمانی وہ عظیم اور قابل احترام ہستی ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں قائداعظم کی درخواست پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اور قائداعظم کے انتقال پر اُن کا جنازہ پڑھایا۔ قائداعظم نے تو تھیوکریسی کا ردّ کرتے ہوئے اسے Priests یعنی پادریوں کی حکومت کہا، مگر علامہ عثمانی نے مسلم معاشرے کے تناظر میں زیادہ واضح طور پر کہا کہ اسلامی ریاست کو چلانے والے محض ’مولوی‘ نہیں ہوں گے۔ ان کا مندرجہ بالا بیان قائداعظم کی فکر سے مکمل طو رپر ہم آہنگ ہے۔ ٭ دورِ حاضر میں اسلامی ریاست کے تصور کی وضاحت میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے پیش کردہ افکار کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ وہ بھی مذہبی پیشواؤں کے مخصوص طبقے کی طرف سے چلائی جانے والی ’تھیوکریسی‘ کے مخالف تھے۔ ایئرمارشل(ر) جناب اصغر خان نے اپنی کتاب"The lighter side of power game" میں مولانا مودودی کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے، لکھتے ہیں : ’’مارچ ۱۹۶۹ء میں لاہور میں اپنے پہلے باقاعدہ سیاسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میں ایک ایسی حکومت کے قیام کے خلاف ہوں جو مولویوں کے ذریعے چلائی جائے، مجمع نے اس پر تالیاں بجائیں مگر کچھ دنوں کے بعد اخبارات میں میرے اس بیان کے خلاف خطوط کی بھرمار ہوگئی کہ میں نے ’غیراسلامی‘ بات کی ہے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں اخبارات میں بیان دے کر مذکورہ بیان سے دستبردار ہونے کا اعلان کروں ورنہ ’اسلام پسند‘ عوام اس سے ناراض ہوجائیں گے۔ کچھ دنوں بعد راولپنڈی میں گول میز کانفرنس کے اجلاس کے دوران مولانا مودودی، امیر جماعت اسلامی میرے پاس آئے اور پوچھا کہ میرا اس بات سے مطلب کیا تھا کہ میں مولویوں کی حکومت کی حمایت نہیں کرتا۔ مجھے ان کے اس سوال پر حیرت