کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 4
پہلی دفعہ تو بل کے وقت ِنفاذ اور نام وغیرہ کے بارے میں ہے جبکہ دفعہ ۲۱ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے مسلم جج،البتہ غیرمسلموں کے لئے غیر مسلم جج بھی ہوسکتا ہے اور دفعہ ۲۲ میں وہ مستثنیٰ صورتیں ذکر کی گئی ہیں جہاں حدود آرڈیننس کو جاری نہیں کیا جائے گا۔ 5. یہی رویہ حد ِزنا آرڈیننس کے علاوہ حد ِقذف آرڈیننس کے ساتھ بھی اختیارکیاگیا ہے جس کی ۸ دفعات (۴،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۵،۱۶،۱۹) کو کلی طور پر منسوخ اور ۶ دفعات (۱،۶، ۸، ۹، ۱۴ اور ۱۷) میں حذف و ترمیم کی گئی ہے۔ اس آپریشن کے بعد محض چھ دفعات ہی صحیح سالم باقی رہ گئی ہیں ۔ (دیکھئے بل میں مجوزہ ترامیم : ۲۰تا ۲۹) سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حذف وترمیم کے بعد موجودہ بل کو ترمیم سے تعبیر کیا جائے یا اسے حدود بل کی منسوخی قرار دیا جائے؟ 6. اب ایک نظر ان ترامیم کی شرعی وقانونی حیثیت پر بھی جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ’’ ان میں سے کوئی بھی کتاب وسنت کے خلاف نہیں ۔ ‘‘چودھری شجاعت حسین کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ اگر ایک ترمیم بھی خلافِ اسلام ہو تو وہ اس بل کی حمایت ترک کردیں گے۔ بل کی سفارشات ملاحظہ فرمائیں اور قرآن وسنت کی مقدس تعلیمات بھی، پھر فیصلہ خود کیجئے: 1. بل کی ترمیم نمبر۶کی رو سے زنا بالجبر کی سزا کو سزاے موت قرار دیا گیا ہے جو خلافِ اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام نے زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت کے بجائے شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری قرار دی ہے، چاہے وہ عورت کی رضاسے زنا کرے یا جبر سے۔ گویا اسلام میں زنا ایک جرم ہے جس کی تقسیم رضا اور جبر کے بجائے شادی شدہ او رغیر شادی شدہ کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ زنا بالقتل (زنا + قتل) کی طرح زنا بالجبربھی اسلامی حدود وتعزیرات کی کوئی اصطلاح نہیں ۔ اس سلسلے میں حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ حدیث کی مشہور کتاب موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ ’’آپ نے زنا بالجبر کے ایک کنوارے مجرم کو کوڑے اور جلاوطنی کی سزا دی، پھر جلاوطنی کاٹ کر واپس آنے کے بعد اسے زنا پر مجبور کی جانے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا۔‘‘ (کتاب الحدود، حدیث :۱۳) اسی طرح صحیح بخاری میں یہ واقعہ درج ہے کہ