کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 28
’’ نبی اپنی قوم کے مقابلے میں ناکام ہوسکتا ہے، لیکن رسولوں کے لئے غلبہ لازمی ہے۔‘‘ (میزان حصہ اوّل، صفحہ ۲۳، مطبوعہ مئی ۱۹۸۵ء)
مگر ان متجددین اور منکرین ِحدیث کی یہ نکتہ طرازی بالکل غلط ہے اور خود قرآن مجید کے نصوص اور واضح احکام کے خلاف ہے۔ قرآنِ مجید کی اکثر آیات اس قدر واضح اور صریح انداز میں (عبارۃ النص کے طریقے پر) اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ انبیاے کرام کی طرح رسولوں کا قتل ہوجانا بھی ایک امر واقعہ ہے۔
قرآنِ مجید کے نصوص
قرآنِ مجید کے جن نصوص کی بنیاد پر ہم اس ’نئے عقیدے‘ اور اس ’نرالے اُصولِ دین‘ کو غلط قرار دیتے ہیں ، ان کی تفصیل یہ ہے :
1. سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ دوسرے رسولوں کی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی وفات پانے یا قتل ہوجانے کی دونوں صورتوں کا امکان موجود ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعی موت بھی آسکتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتول بھی ہوسکتے ہیں :
﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ﴾
’’اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو بس ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں ۔ پس اگر یہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اُلٹے پاؤں واپس چلے جاؤ گے اور جو کوئی بھی اُلٹے پاؤں واپس چلا جائے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا۔‘‘ (آلِ عمران:۱۴۴)
2. سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل سے فرمایا گیاکہ
﴿أَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَھْوَی أَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ﴾ (البقرۃ:۸۷)
’’تو کیا جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس وہ چیز لے کر آیا جو تمہارے نفس کو پسند نہ آئی تو تم نے تکبر کی راہ اختیار کی۔ پھر بعض کو تم نے جھٹلایا اوربعض کو تم قتل کرتے تھے۔‘‘
اس آیت سے واضح طور پرمعلوم ہواکہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں کئی رسول قتل ہوئے تھے۔