کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 27
تحقیق و تنقید محمد رفیق چودھری
کیا کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا؟
دور ِ جدید کے بعض تجدد پسند حضرات نے نبی اور رسول کے درمیان منصب اور درجے کے لحاظ سے فرق و امتیاز کی بحث کرتے ہوئے یہ نکتہ آفرینی بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو تو اُن کی قوم بعض اوقات قتل بھی کردیتی رہی ہے مگر کسی قوم کے ہاتھوں کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔ یہ لوگ اس امر کو ایک اُصول، ایک عقیدہ اور قانونِ الٰہی قرار دیتے ہیں کہ نبی کے لئے وفات پانے یا قتل ہونے کی دونوں صورتیں تو ممکن ہیں مگر رسول کبھی قتل نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ جناب جاوید احمد غامدی کے امام صاحب مولانا امین احسن اصلاحی سورۂ ق کی آیت۱۴کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’رسول کا کسی قوم کے ہاتھوں قتل ہونا ثابت نہیں ہے۔‘‘ (تدبر قرآن : ۷/۵۴۲)
پھر اپنے امام صاحب کے اس متن کی گول مول شرح جاوید احمد غامدی صاحب نے یوں بیان فرمائی ہے کہ
’’رسولوں کے بارے میں اس اہتمام کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زمین پرخدا کی کامل حجت بن کر آتے ہیں ۔ وہ آفتابِ نیم روز کی طرح قوم کے آسمان پر چمکتے ہیں ۔ کوئی دانا و بینا کسی دلیل و برہان کی بنا پر اُن کا انکارنہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو کسی حال میں ان کی تکذیب کرنے والوں کے حوالے نہیں کرتا۔ نبیوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی قوم ان کی تکذیب ہی نہیں کرتی، بارہا اُن کے قتل کے درپے ہوجاتی ہے اور ایسا ہوا بھی ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے… لیکن قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے معاملے میں اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔‘‘
(ماہنامہ ’اشراق‘ اگست ۱۹۸۸ء صفحہ ۶۸ نیز ’میزان‘ حصہ اوّل، صفحہ ۲۱ مطبوعہ مئی ۱۹۸۵ء)
پھر مزید ارشاد فرمایا ہے کہ