کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 25
٭ سوال۸: بیت اللہ میں امام کی آواز سپیکر پر سنائی دیتی ہے، اس کے باوجود سپیکر (آلہ مُکَبِّر الصّوت) میں تکبیرات کہتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے؟
جواب: مکبّرکا جواز چونکہ شرع میں علی الاطلاق مسلمہ ہے، اس لئے اگر کوئی اس کو برقرار رکھتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ بسا اوقات مسجدکا سپیکر خراب ہوسکتا ہے جس کا مشاہدہ بیت اللہ میں عملاً ہوچکا ہے تواس صورت میں مکبرسے استفادہ کی ایک ضرورت بھی ہے ۔
٭ سوال۹: ائمہ ثلاثہ کے نزدیک کبڑا امام جس کی کمر رکوع کی حد تک جھکی ہو، اس کی اقتدا صحیح نہیں ، کیا ایسے کو امام نہیں بنانا چاہئے؟
جواب : کبڑے آدمی کی چونکہ اس حالت میں اپنی نماز درست ہے لہٰذا اس کی امامت بھی درست ہے۔ قاعدہ معروف ہے: من صحّت صلاتہ صحت إمامتہ (سبل السلام: ۳/۸۳) تاہم کوشش ہونی چاہئے کہ صحت مند آدمی نماز پڑھائے۔بوقت ِضرورت ایسے آدمی کی امامت بھی درست ہے جس طرح کہ شرع نے نابینا کی امامت کو بھی قابل اعتبارسمجھا ہے۔
سجدۂ سہو کے متعلق چند سوالات
٭ سوال۱۰:شافعیہ کے نزدیک امام سجدہ سہو نہ کرے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی سجدہ سہو کرلے۔ حنفیہ کے سوا سب یہی کہتے ہیں بشمول حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ۔
جواب : حنفیہ کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدی کی نماز کی بنا امام کی تکبیرتحریمہ پر ہے تو چونکہ اس نے سجدہ سہو نہیں کیا لہٰذا مقتدی بھی نہ کرے۔ اس صورت میں راجح بات یہ ہے کہ مقتدی کو سجودِ سہو کردیناچاہئے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری :۲/۱۸۸
٭ سوال ۱۱:کیا واجب امور میں سہو ہوجانے سے سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔ حنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک امام واجب سجدۂ سہو ترک کردے تو مقتدی خود سجدہ سہو کرے؟
جواب : بایں صورت واجب کو ادا کرنے کے ساتھ سجدہ سہو بھی کرنا چاہئے۔
٭ سوال ۱۲: مالکیہ کے نزدیک کسی نے اگر ایسی صورت میں سجدہ سہو کرلیا کہ جس میں سجدہ سہو مشروع نہیں ہے تو چونکہ اس نے نماز میں سجدہ سہو کا اضافہ کیا ہے لہٰذا اس اضافہ کی وجہ سے اب اس پر سجدہ سہو کرنا واجب ہے، آپ کیا فرماتے ہیں ؟
جواب:حدیث: (( لکل سہو سجدتان))کی بنا پر ایسے شخص پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔