کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 23
وفیہ اعتماد العرف في الأمور التی لاتحدید فیھا من قبل الشرع۔ ’’جن اُمور میں شرعی کوئی حد بندی نہیں وہاں اعتبار عرف کا ہوگا۔‘‘ (فتح الباری (۹/۵۱۰) علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالمعروف القدر الذي عرف بالعادۃ أنہ الکفایۃ(نیل الاوطار:۶/۳۴۲)قرآن کی آیت﴿لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ﴾ ’’صاحب وسعت کو اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے۔‘‘سے سابقہ موقف کی تائید ہوتی ہے۔کم تر سے مقصود اگر حیثیت سے کم ہے تو بایں صورت حیثیت کے مطابق خرچہ ہوناچاہئے اور اگر اس کی فراوانی کے مقابلہ میں ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ اصحابِ حق کو ان کا حق مل چکا ہے اور وہ اپنے مال کے تصرف میں شرعی حدود کے اندر خود مختار ہے، لہٰذا اس سے مزید کوئی مطالبہ نہیں ہوسکتا اور نہ اس پر کوئی مؤاخذہ ہے،ہاں البتہ جائز حق میں کوتاہی کی صورت میں عنداﷲ جواب دہ ہے۔ نماز اور روزہ کے بارے میں چند سوالات ٭ سوال ۱: اقامت کا جواب دیناچاہئے یانہیں ؟ جماعت المسلمین کے امیر مسعود احمد نے لکھا ہے کہ اقامت کا جواب دینا کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔ جواب: اقامت کا جواب دینے کی حدیث سنن ابو داود میں ہے لیکن اس کی سند میں ضعف ہے۔ اس میں دو راوی محمد بن ثابت العبدی اور شہر بن حوشب ضعیف ہیں ، نیز ان دونوں کے درمیان راوی مجہول ہے ۔لہٰذا یہ حدیث قابل عمل نہیں ہے ۔ ٭ سوال ۲: مؤذّن اور خطیب ِجمعہ منبری اذان کے بعد دو رکعت پڑھیں گے یا کب پڑھیں گے کہ ان کا عمل اس حدیث کے مطابق ہو کہ ’’ہر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت ہے۔‘‘ جواب : منبری اذان کے بعد دو رکعتیں پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ، البتہ اس موقعہ پر اگر کوئی آدمی باہر سے آئے تو وہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے۔ ٭ سوال۳: جو شخص پہلے سے مسجد میں موجود ہو، وہ اس حدیث پر عمل کرنے کی غرض سے اذانِ منبری کے بعد دو رکعت پڑھے گا یا نہیں ؟