کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 22
نماز ِتحیۃ المسجد کا حکم ٭ سوال: تحیۃ المسجد کا کیا حکم ہے اور ممنوع اوقات میں تحیۃ المسجد پڑھنا کیسا ہے؟ جواب :جب کوئی شخص مسجد میں آئے تو اس کے لئے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنا تاکیدی حکم ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : (( إذا دخل أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس)) (بخاری: ۴۲۵) ’’جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔‘‘ اس کے جواز میں کسی کو کلام نہیں ، تاہم اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ ممنوع اوقات میں اس کی ادائیگی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ راجح بات یہ ہے کہ ان اوقات میں سببی نماز کا جواز ہے اور بلا سبب ناجائز ہے ۔ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھذا القول ھو أصح الأقوال وھو مذھب الشافعي وإحدی الروایتین عن أحمد واختارہ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ وتلمیذہ العلامۃ ابن القیم وبہ تجتمع الأخبار، وﷲ أعلم۔ (حاشیہ فتح الباری: ۲/۵۹) ’’یہ صحیح ترین قول ہے اور یہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی مسلک اختیارکیا ہے اور اسی سے احادیث کے درمیان بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔‘‘ اولاد کے نان نفقہ کا معیار ٭ سوال:ایک شخص خود عمدہ کھاتا پیتا ہے اور اولاد کوکم تر کھلاتا ہے ،شرعاً ایسے فعل کا کیا حکم ہے؟ جواب : بلا شبہ انسان پر اپنی جان کا حق سب سے پہلے ہے پھر جملہ حقوق درجہ بدرجہ اس کے بعد ہیں اور اولاد کا خرچہ بھی باپ کی حیثیت کے مطابق ہے۔احادیث میں اس کی تعبیرلفظ معروف سے کی گئی ہے۔ قصہ ہند بنت ِعتبہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (( خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف)) (صحیح بخاری: ۴۹۴۵) ’’عرف کے مطابق اتنالے لو جتنا تمہیں اور تمہاری اولاد کو کفایت کر جائے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :