کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 21
دار الافتاء مولانا مفتی حافظ ثناء اللہ خان مدنی شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ ٭ تحیۃ المسجد کا حکم ٭ نماز اور سجدہ سہو کے متعلق سوالات مزنیہ عورت کی بیٹی سے نکاح کی شرعی حیثیت ٭ سوال:ایک منکوحہ اوراولاد والی عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کے مراسم اس حد تک ہوجائیں کہ اسلامی حدود بھی پار ہوجائیں ۔ اب کافی سال گزرنے کے بعد وہ شخص اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرناچاہتا ہے ،کیا قرآن وسنت کی روشنی میں اجازت ہے؟ جواب:مذکورہ بالا صورت میں مزنیہ کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے ۔راجح مسلک کے مطابق زنا سے حرمت ِمصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ سنن ابن ما جہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: (( لا یحرّم الحرام الحلال)) ’’حرام کے ارتکاب سے حلال شے حرام نہیں ہوتی۔‘‘ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیاہے: إذا زنیٰ بأخت امرأتہ لم تحرم علیہ امرأتہ۔’’جب کوئی اپنی سالی سے زنا کرلے تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی۔‘‘ صحیح بخاری (باب مایحل من النساء ومایحرم۔۔۔ الخ)کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے : ’’ جمہور زنا سے حرمت کے قائل نہیں وحجتہم أن النکاح في الشرع إنما یطلق علی المقصود علیہا لا علی مجرد الوطء وأیضا فالزنا لاصداق فیہ ولا عدۃ ولامیراث،قال ابن عبدالبر: وقد أجمع أھل الفتوی من الأمصار علیٰ أنہ لایحرم علی الزاني تزوّج من زنی بہا فنکاح أمھا وأبنتہا أجوز (فتح الباری: ۹/۱۵۷) ’’اور ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت میں نکاح کا اطلاق اس کے مقصود پر ہوتا ہے ، محض مجامعت کانام نکاح نہیں ہے ۔نیز زنا میں نہ حق مہر ہوتا ہے، نہ عدت اور میراث۔ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ جب مختلف علاقوں کے اہل فتویٰ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ زانی کیلئے اپنی مزنیہ سے نکاح کرنا حرام نہیں ہے تو پھر مزنیہ کی ماں یا اس کی بیٹی سے نکاح کرنا بالاولیٰ جائز ہوا۔‘‘