کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 20
خیزی کا سامنا پاکستانی قوم کوبھی کرنا پڑے گا۔ زنابالرضا کی چھوٹ ملنے پرپاکستانی معاشرہ ’سیکس فری سوسائٹی‘ میں تبدیل ہوجائے گا، جہاں عصمت فروشی اور قحبہ گری کا دور دورہ ہوگا۔ جس مذموم فعل کا ارتکاب ابھی تک قانون اور معاشرے کے خوف کی بنا پر سات پردوں کے پیچھے کیا جاتا ہے، وہ سرعام وقوع پذیر ہوگا اور معاشرے کی کثیر تعداد قومی غیرت و حمیت کے ان تمام مظاہر و مقتضیات کو نقش و نگارِ طاقِ نسیاں بنادے گی جو پوری ملت ِاسلامیہ کا سرمایۂ افتخار اور طرۂ امتیاز ہیں ؎ جس کو خدا کی شرم ہے وہ ہے بزرگِ دین دنیا کی جس کو شرم ہے مردِ شریف ہے جس کو کسی کی شرم نہیں اس کو کیا کہوں فطرت کا وہ رذیل ہے دل کا کثیف ہے امریکہ اور یورپ کی جس نام نہاد جدت پسندی، روشن خیالی اور ننگ انسانیت تہذیب و ثقافت نے حکومتی ایوانوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اس کی تباہ کاریاں انہی کومبارک…! پاکستانی قوم کو ’تحفظ ِحقوقِ نسواں ‘ کے پُرکشش اور دل فریب تصور کا جھانسا دے کر راہِ راست سے منحرف نہ کیا جائے۔ پہلے ہی صورتِ حال یہ ہے کہ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے اخلاق باختہ اور حیا سوز مناظر پوری قوم کو دکھائے جارہے ہیں ، اکثر تعلیمی اداروں میں مخلوط نظامِ تعلیم رائج ہے اور حکومتی سرپرستی میں مرد وزن کی مشترکہ میراتھن ریس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات میں زنا بالرضا کو قانونی جواز عطا کرنا مسلمانانِ پاکستان کے اخلاقی و معاشرتی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ِوقت ’وسیع تر قومی مفاد‘ کے پیش نظر حدود قوانین میں کوئی ایسی ترمیم نہ کرے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو، جس سے اہل اسلا م کے دینی و ملی شعائر کو گزند پہنچنے کا امکان ہو یا جو پاکستانی عوام کو اپنے منفرد سماجی افکار و نظریات اور رسوم ورواج سے بیگانہ کردے۔ اسی میں پوری قوم کی سلامتی اور عافیت کا راز پوشیدہ ہے ؎ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی!