کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 19
ناجائز بچوں کی شرح ۲ فیصد، سوئٹزر لینڈ میں ۱ء۶ فیصد، فرانس میں ۱ء۳۰ فیصد، ڈنمارک میں ۴ء۴۶فیصد اور سویڈن میں ۲ء۴۸ فیصد ہے۔ ان بچوں کی اکثریت والدین سے کماحقہ التفات اور دھیان سے محروم ہوتی ہے، اُنہیں اخلاقی حدود و قیود اور معاشرتی اقدار و روایات سے آگاہ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، زندگی بسر کرنے کے مہذب و متمدن اطوار سے باخبر کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور کوئی نہیں ہوتا… کوئی بھی نہیں … جو اُنہیں اس حقیقت کا شعور بخش سکے کہ عارضی سرور اور وقتی لذت کے لئے کیا جانے والا زنا انسان کو حقیقی مسرت اور دائمی فرحت عطا کرنے سے قاصر ہے۔ اصل انبساط اور خوشی سے تو وہ لوگ ہمکنار ہوتے ہیں جو اپنی شہوانی آرزوؤں کی تسکین اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے نکاح جیسے اہم فریضے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں ۔ یہ موضوع طویل بحث اور عمیق تفصیل کا متقاضی ہے مگر ہمیں اس وقت عدمِ فرصت اور صفحات کی تنگ دامانی کا سامنا ہے، بہرحال قصہ کوتاہ یہ کہ والدین کی جانب سے اپنی اولاد کی مناسب تعلیم و تربیت اور پرورش و نگہداشت کے فقدان کی بنا پر آج مغربی ممالک میں بسنے والے افرادکی اکثریت اَن دیکھے مقامات کی راہی اورنامعلوم منزلوں کی جانب محو ِسفر ہے۔ ان میں مختلف قسم کی اخلاقی، روحانی اور سماجی برائیاں جیسے زنا کاری، بادہ کشی، کذب گوئی، اذیت رسانی، فریب دہی، جوا بازی، سود خوری، سرقہ زنی اور نجانے کون کون سی سیئات اس طرح سے سرایت کرچکی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اگر ہم ان کی تفصیل بیان کریں گے تو اصل موضوع سے دور ہٹ جائیں گے پس واضح ہواکہ محض ایک بُرائی زناکاری سے خاندانی نظام تہہ وبالا ہوا، اس سے پورا معاشرہ درہم برہم ہوا اور اس غم کدۂ رنگ و بو میں بسنے والی ایک قوم کی ایسی داستانِ حیات عالم تخیل سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی کہ جس کا ہرصفحہ تیرہ و تار اور ہر باب غم انگیز ہے۔
اگر حدود قوانین میں مجوزہ ترامیم کابل خدانخواستہ منظور ہو جاتا ہے اور زنا بالرضا کو وطن مالوف میں قانونی تحفظ مل جاتا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ان ’اعتدال پسند‘ اور ’روشن خیال‘ ممالک کی صف میں تو کھڑا ہوجائے گا، جہاں جنسی بے راہ روی کے اعتبار سے انسانوں اور جانوروں میں کوئی خاص فرق نہیں مگر اس کے بعد خاندانی اور معاشرتی نظام کی جس بربادی وتباہی کا آج مغربی ممالک سامنا کررہے ہیں ، ہوبہو اسی آشفتہ سری، ژولیدہ حالی اور ہلاکت