کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 18
گا اور اس کے افکار و نظریات اور رسوم و رواج کی انفرادیت و یگانگت برقرار رہے گی لیکن اگر اس نظام میں کجی اور مسلمہ معاشرتی اقدار و روایات سے انحراف کے عناصر موجود ہوئے تو اس کے تباہ کن اور ضرر رساں اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور ایسا معاشرہ قوانین ِفطرت سے اِعراض کرنے کی پاداش میں جلد یا بدیر خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ خاندانی نظام کی درستی یا بگاڑ میں خاوند اور بیوی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر زوجین کے مابین مہر و وفا اور صدق و صفا کے احساسات و جذبات نکاح کی صورت میں موجود ہوں تو لامحالہ اس کے خوشگوار اور نفع بخش اثرات ان کی اولاد پر بالخصوص اور تمام افرادِ معاشرہ پر بالعموم مرتب ہوتے ہیں اور اگر مرد وزن کے مابین نکاح کا مضبوط اور مقدس رشتہ موجود نہ ہو اور ان کے باہمی تعلقات و روابط محض جنسی آسودگی اور شہوانی لذت حاصل کرنے تک محدود ہوں تو بلا شک و شبہ یہ اقدام نہ صرف تولد ہونے والی اولاد کو باپ کی کمال درجہ شفقت اور ماں کی لائق ِقدر ممتا سے محروم کردیتا ہے بلکہ من حیث المجموع پوری سوسائٹی کے لئے ایسے توہین آمیز، رسوا کن اور سنگین نتائج و عواقب کا باعث بنتا ہے جو افرا دمعاشرہ کی ہر موجود صفت (Attribute)کو معدوم کردیتے ہیں ۔ خاندانی نظام کی بربادی، معاشرتی زندگی کی تباہی اور قلبی اطمینان و سکون کی عدم موجودگی کا یہ وہ اندوہناک اور عبرت انگیز پہلو ہے جس کا تجربہ ومشاہدہ آج مغربی ممالک کی اکثریت کررہی ہے۔امریکہ اور یورپ میں خاندانی نظام کی زبوں حالی کا مفصل تجزیہ کرنا ہمارا مقصود نہیں تاہم ’مشت ِنمونہ از خروارے‘ کے مصداق چند چشم کشا حقائق نذرِ قارئین ہیں :
ایک حالیہ سروے کے مطابق مغربی ممالک میں بسنے والے مرد اپنی زندگی میں اوسطاً ۶ء ۱۴ عورتوں سے بدکاری کرتے ہیں جبکہ وہاں سکونت پذیر عورتیں اوسطاً ۵ئ۱۱ مردوں سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہیں ۔ ۱۹۵۹ء میں برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے شائع شدہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں ہر تیسری عورت شادی سے قبل دوسرے مردوں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں ’تہذیب و تمدن کے علمبردار‘ برطانیہ میں ہر بیسواں بچہ ’ولد الزنا‘ ہوتا ہے۔یونان میں ’بذریعہ زنا‘ پیداہونے والے