کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 17
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے اس وقت پورے عالم اسلام میں صرف تین ملک (ایران، پاکستان اور سعودی عرب) ایسے ہیں جہاں زنابالرضا قانونی طور پر جرم ہے۔ ان کے علاوہ پورے رُبع مسکون میں کہیں بھی رضا مندانہ بدکاری کو قانونی طور پرجرم اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو مستوجب ِسزا نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں بھی حدود قوانین کے نفاذ (۱۰/ فروری ۱۹۷۹ئ) سے قبل زنا بالرضا آئینی اور قانونی طور پر جرم کے زمرے سے خارج تھا، تاہم اس کے نفاذ کے بعد زنا بالرضا کی قانونی حیثیت متعین ہوئی اور اسلام کے نظامِ حدود کے تحت اسے قانونی طور پرجرم قرار دیا گیا۔ چونکہ قیامِ پاکستان کا سب سے عظیم اور نمایاں مقصد ایک ایسے خطہ زمین کا حصول تھا جہاں شریعت ِاسلامیہ کے تمام اُصول و ضوابط اور قواعد و قوانین کو جملہ شعبہ ہائے حیات میں بدرجہ اتم نافذ کیا جاسکے، اس لئے وطن ِعزیز میں حدود آرڈیننس کی تنفیذ بجاطور پر ایک حوصلہ افزا اور خوش آئند امر تھا مگر اسے پاکستانی عوام کی تیرہ بختی اور سوختہ نصیبی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ وقتاً فوقتاً حدود اللہ کو معاذ اللہ بازیچہ اطفال سمجھنے والے حکومتی گماشتوں ، نام نہاد مذہبی سکالروں اور مغربی تہذیب و ثقافت کے بے نام و نسب علمبرداروں کے پیٹ میں حدود قوانین کے خلاف مروڑ اُٹھتے رہے۔ اُنہوں نے مختلف ابلیسی تاویلوں اور شیطانی ہتھکنڈوں کی آڑ لے کر حدود آرڈیننس کو اسلام، عصری تہذیب و تمدن، انسانی حقوق اور تحفظ ِنسواں کے خلاف باور کرانا چاہا اور پیہم اسی تگ و تاز میں منہمک رہے کہ یا تو حدود قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کردیاجائے یا پھر اس میں ایسی ترامیم کردی جائیں جو عملی طور پر اسے عضو ِمعطل بنادیں تاہم اس سعی ٔنامشکور کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور گردشِ ایام کے ایک معمولی دور کے بعد آج پھر پاکستانی عوام اسی معرکہ خیر و شر کا سامنا کررہی ہے۔ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی معاشرے کی بقا و سلامتی کا انحصار جن اجزا و عناصر پر ہوتا ہے، ان میں سے اہم ترین عنصر خاندانی نظام کا استحکام ہے۔ اگر یہ نظام مضبوط اور محکم بنیادوں پر استوار ہوگا تو انسانی معاشرہ بھی بحیثیت ِمجموعی درست راستے پرگامزن رہے