کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 16
لبِ جُو حافظ محمد آصف احسان
حدود آرڈیننس اور حکومتی ترامیم
امکانات، خدشات اور مضمرات
اس حقیقت سے ہر صاحب ِفہم و ذکالازمی طور پراتفاق کرے گاکہ اخلاقی بے راہ روی اور مادر پدر آزادی حضرت انسان کو ’اشرف المخلوقات‘ کے رتبہ ٔ عالی شان سے گرا کر عقل و شعور سے عاری حیوانات کی صف میں لاکھڑا کرتی ہیں اور انسان کی سماجی زندگی کے ان گوناگوں محاسن و محامد کو پیوند ِخاک کردیتی ہیں جو جملہ بشریت کا اندوختہ گراں مایہ اور اثاثہ ٔ بے مثل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام جو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے، نے انسانی معاشرے میں عریانی و فحاشی کے فروغ کی سخت مذمت کی ہے اور ان اُمور و معاملات کو مکمل طور پر حرام قرار دیاہے جو انسانیت کی معراج یعنی شرم و حیا کے منافی ہوں ۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (سورۃ النور:۱۹)
’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دُکھ دینے والا عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘
خالق ِکائنات کی جانب سے اس قدر شدید تنبیہ کے باوجود یہ امر انتہائی اذیت رساں اور تاسف انگیز ہے کہ موجودہ ’پرویزی‘ حکومت حدود آرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے زنا بالرضا (Fornication)کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے درپے ہے۔ ارباب ِبسط و کشاد اور اصحاب ِحل و عقد اس بات کے آرزو مندہیں کہ باہمی رضامندی سے کی جانے والی زنا کاری کو ہر طرح کے ریاستی قوانین سے بالا تر قرار دے دیا جائے اور اس اہانت آمیز اور شرمناک فعل کا ارتکاب کرنے والے ’جانوروں ‘ پر کوئی شرعی حد نافذ نہ کی جائے ؎