کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 15
’تحفظ ِ نسواں بل‘ سے متعلق علماء کمیٹی کی ’اصل‘ سفارشات ’’حکومت کی دعوت پر آنے والے علماء کرام نے آغاز میں ہی یہ طے کرلیا تھا کہ دو تین اُصولی اور اہم اُمور کو پہلے زیر بحث لایا جائے، اگر حکومت ان کے بارے میں ہماری بات قبول کرنے کو تیارہو تو باقی اُمور پر بات کی جائے ورنہ مسودۂ قانون پر مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں تین باتیں ہمارے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتی ہیں : 1. زنابالجبر کو نئے مسودہ میں حدودِ شرعیہ سے نکال کر تعزیرات میں شامل کردیا گیا ہے جو قطعی طور پر غلط ہے، اسے حدود میں واپس لایا جائے اور اس کی سزا رجم ہی رکھی جائے۔ 2. زنا بالرضا میں شرعی شہادتیں پوری ہونے کی صورت میں اس کی سزا حد شرعی یعنی رجم رکھی گئی ہے، لیکن شہادت کا نصاب مکمل نہ ہونے کی صورت میں زنا سے متعلقہ دیگر جرائم کو تعزیرات سے بھی نکال دیا گیا ہے، یہ بالکل غلط بات ہے۔ زنا بالرضا کا اگر شرعی ثبوت نہ بھی مل سکے تو اس سے متعلقہ جو جرائم ثابت ہوچکے ہوتے ہیں مثلاً مرد اورعورت کی ناجائز خلوت اور دیگر دواعی ٔزنا کے تعزیری احکام کو بحال کیا جائے۔ 3. حدود آرڈیننس کو باقی قوانین پر بالاتر حیثیت دی گئی تھی جسے نئے مسودہ قانون میں ختم کردیا گیا ہے، اسے دوبارہ بحال کیاجائے۔ ان اُمور پر اتفاقِ رائے کو تحریری شکل میں لایاگیا جس میں علماے کرام نے واضح کیا کہ یہ رائے صرف ان اُمور کے بارے میں ہے، باقی معاملات میں اگر رائے طلب کی گئی تو وہ بعد میں دی جاسکتی ہے۔ اب ان سفارشات کی روشنی میں وزارتِ قانون ’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ کے قومی اسمبلی میں پیش کردہ مسودہ میں کیسی ترمیم لاتی ہے، ایک دو روز میں یہ بات بھی واضح ہوجائے گی۔‘‘ (اقتباس از کالم ’نوائے حق‘ مولانازاہد الراشدی : روزنامہ ’پاکستان‘ ۱۴/ستمبر ۲۰۰۶ء ) ٭ تبصرہ : علماء کمیٹی کے ایک فاضل رکن کی یہ تحریر اپنے مفہوم ومدعا میں بالکل واضح ہے لیکن وعدہ کے باوجود ان ترامیم کو بھی تاحال ’تحفظ ِخواتین بل‘ میں شامل نہیں کیا جارہا اور یوں بھی حکومت نے ان میں تحریف کردی ہے۔ واضح رہے کہ ان تجاویز میں ابھی جزوی اصلاحات اور قانون کے اجرا کے طریق کارپر کوئی شق موجود نہیں ہے اور یہ اصلاحات اگر شامل کر بھی لی جائیں تو اجرا کی پیچیدگیوں کی وجہ سے حدود کا نفاذ قابل عمل نہیں رہتا۔ ح م