کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 14
میں زنا کاری کو قانونی جواز دینے او رعملاً خواتین پر مزید ظلم وزیادتی کی سازش ہورہی تھی۔ تادمِ تحریر تو عام تاثر یہی ہے کہ حدود قوانین میں ترامیم کے بل کا معاملہ اب سرد ہوچکا ہے خدا نخواستہ اگر اسے دوبارہ کسی شکل میں اسمبلی میں لایا جاتا ہے تو اس میں ان تمام نکات کا خاتمہ کرنا ضروری ہوگا جس کی فہرست صفحہ ۱۲ پر موجود ہے۔ کم از کم وہ تین ترامیم جوپاکستان کے سرکردہ علما نے پیر ۱۱/ستمبر کو تجویز کی ہیں اور حکومت نے چودھری برادران اور سردار نصر اللہ دریشک کے توسط سے اُنہیں بل میں شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس کے بعد اُنہیں بدھ ۱۳/ستمبر یا قومی اسمبلی کے کسی بھی اجلاس میں تاحال شامل نہیں کیا گیا، اور ابھی تک ان ترامیم کو نظر انداز کرکے محض ان علما کے اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مشتہر کیا جارہا ہے جن کے بارے میں ایک طرف انہی علما کا یہ کہنا ہے کہ حکومت نے ان ۳ ترامیم کے اصل متن میں بھی تحریف کرلی ہے جبکہ حکومت بھی یہ امرتسلیم کرکے اسے ترجمہ کی غلطی باور کرا رہی ہے اور دوسری طرف ان علما کا موقف یہ بھی ہے کہ ان ترامیم کی حیثیت صرف بنیادی اُصولی نکات کی ہے، اگر حکومت اُنہیں تسلیم کرتی ہے، تب وہ بل کا مزید جائزہ بھی لیں گے لیکن اس سیاسی پروپیگنڈے کے بعد اب ممتاز علما کو ویسے ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف مجلس عمل کا موقف ان تین ترامیم کے بارے میں ۱۱/ستمبر سے ہی یہ ہے کہ جب تک حکومت اُنہیں بل میں شامل کرکے نہیں دکھاتی، اس وقت تک وہ ان ترامیم کے بارے میں کوئی واضح موقف رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ، اس لئے اس بل کو فی الوقت مؤخر کردیا جائے۔مزید برآں پی پی پی اور ایم کیو ایم اس بل میں کسی بھی ترمیم کے بعد اس کی حمایت کرنے پر آمادہ نہیں ۔ یہی وہ حالات ہیں جن کے بعد حکومت کو تادمِ تحریر اپنی وعدہ شدہ ترامیم پر کسی سیاسی جماعت کی حمایت بھی میسر نہیں ۔ ممکن ہے، اس سے حکومت نے کئی سیاسی مفادات حاصل کئے ہوں لیکن کم از کم اس جنگ کے نتیجے میں ایک غیر اسلامی بل متنازعہ ہوگیاجس پر ہمیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ ایک مسلمان کے لئے کتاب وسنت کا تحفظ ہی اہم ترین امر ہے !!