کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 12
رہے کہ اسلام میں کنوارے زانی کی سزا ۱۰۰ کوڑے ہے، نہ کہ محض۵ یا ۷ سال!
3. حدود قوانین صرف نمائشی اور عملاً معطل ہیں کیونکہ PPC اور حدود میں تضاد کے بعد دفعہ ۳ کو حذف کرکےPPC پربچے کچھے حدود قوانین کی برتری کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔
4. اسلام میں چار گواہوں میں مدعی شامل ہوتا ہے، ترمیم میں مدعی کے علاوہ چار گواہوں کا تقاضا کیا گیا ہے۔
5. پھر ہر صورت میں چار گواہ ضروری نہیں بلکہ ملزم کا اکیلا اعتراف بھی زنا کا کافی ثبوت ہے۔
6. گواہوں کا مسلمان ، بالغ ہونا ضروری ہے۔ نئی ترمیم میں چار گواہ غیرمسلم بھی ہوسکتے ہیں جو غیر اسلامی ہے۔
7. سلیکٹ کمیٹی کی نئی متفقہ سفارش (اخبارات یکم ستمبر) کی رو سے زنا بالجبر میں بھی چار گواہ ضروری ہیں ۔ زنا بالجبر میں اصل مظلوم توعورت ہے، وہ چارگواہ کہاں سے لائے گی؟ نتیجہ یہ کہ زنا بالجبر کی سزا بھی عملاً معطل ہے۔ اب زنا بالرضا تو PPC کے سابقہ قوانین بحال ہونے کی وجہ سے کوئی جرم نہیں رہا، حدود آرڈیننس ویسے ہی تابع ہیں ۔ عملاً پاکستان میں زنا کاری کی کھلی چھوٹ ہوگی ہے، یہ بل دراصل ’بدکاری کا لائسنس‘ ہے۔
8. اقدامِ زنا، فحاشی، برہنہ اور اغوا کرنے وغیرہ کے جرائم ناقابل سزا بنا دیے گئے ہیں ۔
(حدود آرڈیننس کی دفعات ۱۰ تا ۱۶ اور ۱۸ کوحذف کردینے سے)
9. ۴ گواہوں کے باوجود زنا کی سزا کا جج کی صوابدید پر رہنا غیر اسلامی ہے اور قذف کی سزا دینے کے لئے محض جج کا اطمینان کافی سمجھنا بھی غیر اسلامی ہے۔
10. زنا کی رپورٹ میں ۴ گواہوں کا تقاضا غیر اسلامی ہے، ۴ گواہوں کی ضرورت تو فیصلہ کے وقت ہے، رپورٹ اکیلا شخص بھی دے سکتا ہے۔
11. ۱۶ سال سے کم عمر کی لڑکی کا ہر زنا ’زنا بالجبر‘ سمجھا جائے، یہ بات بھی غیر اسلامی ہے۔ کیونکہ بلوغت کے بعد لڑکی کی رضامندی معتبر ہے۔ PPCکی دفعہ ۸۳ میں یہ رعایت صرف ۱۲ سال تک کے بچے کو حاصل ہے جبکہ اسلام میں یہ رعایت بلوغت تک حاصل ہے، اس کے بعد نہیں ۔ اسے ۱۶ سال تک کرنا غیر اسلامی ہے !!
12. حد زنا آرڈیننس کی کل ۲۲دفعات میں سے ۱۲ کو منسوخ اور ۶ میں ترمیم تجویز کی گئی ہے صرف چار باقی رہ گئی ہیں ۔ کیا یہ ترمیم ہے یا منسوخی؟