کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 11
سوچئے‘کی مہم چلائی گئی ہے۔ لیکن قوم اس بحث سے پہلے متحد تھی، اب کہیں زیادہ تقسیم ہوگئی ہے !!
٭ دعویٰ کیا گیا کہ یہ قانون خواتین کے تحفظ کے لئے ہے، جبکہ موجودہ قانون کی صورت میں زنا کرنے والے مرد کے خلاف شکایت کو ناممکن بناکر خواتین سے مزید ظلم کیا جارہا ہے۔
٭ دعویٰ کیا گیا کہ حدود قوانین کو منسوخ نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ ترامیم نہایت بھونڈی اور یک لخت منسوخی سے کہیں زیادہ ہیں ۔
٭ پروپیگنڈا کیا گیا کہ’’ کتاب وسنت کے خلاف ایک بھی شق نہیں ہوگی۔‘‘ لیکن یہاں پر قرآن وسنت کے خلاف سزاؤں کے علاوہ طریق ِکار ایسا بنایا گیا ہے کہ عملاً سزا کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ بل کے اس مختصر جائزے سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ
ترمیم حدود آرڈیننس کی بجائے دراصل حدود اﷲ میں کی جارہی ہے!!
اس بل میں بعض ترامیم اسلامی احکامات کے صریح خلاف ہیں ، جبکہ سزا کا طریق ِکار اس قدر غیرمتوازن ہے کہ اس کے ذریعے کسی کا جرم زنا کی سزا پانا ممکن نہیں رہتا ، جس کا نتیجہ ملک میں بے راہ روی کے مزید فروغ اور فحاشی وبے حیائی کی صورت میں نکلے گا۔ بے راہ روی کا مرد وں کے بجائے عورتوں کو زیادہ نقصان ہے، آخر کار یہ بل ’تحفظ حقوقِ نسواں ‘ کے بجائے ’بدکاری کا لائسنس‘ قرار پائے گا جس سے پاکستان میں خواتین کی حرمت وتقدس پامال ہونے کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اراکین ِاسمبلی اور حکمرانوں کو ہدایت دے کہ چندروزہ اقتدار کے لئے وہ اللہ کی حدود سے یہ مذاق اور کھیل بند کریں ، اللہ کی گرفت دنیا میں بھی سخت ہے اور آخر کار روزِ محشرسب کو اس کے حضور جواب دہ ہونا ہی ہے۔ ٭
’ تحفظ ِخواتین بل۲۰۰۶ء ‘میں خلافِ اسلام ترامیم کی فہرست
1. زنا بالجبر کی صورت میں سزاے موت غیر اسلامی ہے کیونکہ کنوارے زانی کی سزا موت نہیں ہے، چاہے وہ زنا بالجبر ہی کرے۔
2. PPC میں ۱۹۷۹ء سے قبل انگریز دور کے قوانین زنا بحال ہوگئے ہیں (حدود آرڈیننس کی دفعہ ۱۹ کو منسوخ کردینے سے) جن میں کنواری، بیوہ یا مطلقہ کے لئے زنا کوئی جرم ہی نہیں اورشوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی زنا کاری کی سزا بھی محض ۵ سال ہے۔ یہ بھی واضح