کتاب: محدث شمارہ 303 - صفحہ 10
7. حدود آرڈیننس میں زنا کے علاوہ اقدام زنا، فحاشی اور مبادیات زنا کی بھی سزائیں مقرر کی گئی تھیں ، جب جنسی فعل کی مکمل شہادتیں پوری نہ ہوں تو اس وقت فحاشی کے ارتکاب کے جرم میں تعزیرات دی جاتی تھیں ۔ موجودہ ترمیم میں ایسے تما م جرائم کی سزاؤں کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جس کے بعد یہ چیزیں بھی جرم نہ رہیں گی۔
8. اسلام نے زنا کے چار گواہوں کے لئے مسلم اوربالغ ہونے کی شرط لگائی ہے، جبکہ موجودہ ترمیمی بل کے بعد یہ گواہی غیرمسلم بھی دے سکتے ہیں جو غیراسلامی ہے۔
9. مجوزہ ترامیم کی شق ۵ کی ذیلی دفعہ پنجم میں ۱۶ برس سے کم عمرکی لڑکی سے ہونے والے زنا کو لازماً زنا بالجبر قرار دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ پیش کی گئی ہے کہ اس سے کم عمر لڑکی کی رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں ۔ یہ ترمیم بھی خلاف ِاسلام اور زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے ۱۶ برس تک لڑکی کے زنا کو قانونی تحفظ دیاگیا ہے کہ ایسے زنا کو لازماً زنا بالجبر تصور کرکے لڑکی کو سزا سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بلوغت کے فوراً بعد ہی بے شمار لڑکیاں زنا بالرضا کی مرتکب ہوتی ہیں جیسا کہ مغربی سکولوں کے اعداد وشمار میں اس امر کاکافی ثبوت موجود ہے، کیونکہ زنا کا تعلق ذ ہنی بلوغت کے بجائے جسمانی بلوغت اور جنسی فعل کو کرنے کی صلاحیت سے ہے۔ پھر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۸۳ کے تحت ۱۲ برس تک کے بچے کو ہی فوجداری جرم سے استثنا کی رعایت مل سکتی ہے لیکن اس ترمیم میں یہ رعایت ۱۶ برس تک دی جارہی ہے۔زنا کے جرم سے ہی یہ امتیاز کیوں برتا جارہا ہے؟
٭ الغرض حدود قوانین کے حوالے سے تما م پروپیگنڈے کا آغاز ’یہ خدائی قانون نہیں ‘ کہہ کر کیا گیا اور آخر کار اس سے کہیں بدتر اور متنازعہ انسانی قانون کو پیش کردیا گیا۔
٭ دعویٰ کیا گیا کہ قوم کو تقسیم کرنے والے ایشوز پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے ’ذرا