کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 9
زانی/ زانیہ کو ۱۰۰ کوڑے اور جلاوطنی جبکہ شادی شدہ زانی/ زانیہ کو سنگساری کی سزا جیسا کہ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔
حدود قوانین: جہاں تک حدود قوانین۱۹۷۹ء کا تعلق ہے تو زانی/ زانیہ کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے ان کی دو شرعی سزائیں ہی مقرر کی گئی ہیں ، البتہ تعزیرات کے ضمن میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ شق ۹ کی ذیلی دفعہ ۴ کی رو سے شرعی نصابِ شہادت پورا نہ ہو توشق ۱۰ کی ذیلی دفعہ ۲ کے تحت زنابالرضا کی سزا ۱۰ سال قید بامشقت، ’تیس کوڑے یا جرمانہ‘ اور ذیلی دفعہ ۳ کی رو سے زنا بالجبر کی سزا ۲۵ برس قید بامشقت اور ’جرمانہ یا ۳۰ کوڑے‘ ہوگی۔ گویا حدود قوانین میں اس فرق ٭ کی بنیاد نصابِ شہادت ہے۔
٭ ایک جرم کے دو معیارِ شہادت پر دو علیحدہ سزائیں دینے پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی جرم یا تو ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کا کیا مطلب ہوا کہ زنا تو ثابت نہیں ہوا لیکن اس کو تعزیری طورپرسزا دے لی جائے۔ دراصل یہاں ایک غلط فہمی موجو دہے کیونکہ تعزیر کی صورت میں اسکو زنا کی بجائے چھیڑ چھاڑ، سیہ کاری یا بوس وکنار کا مجرم سمجھا جائے گا۔ فعل زنا کی سزا تو واضح اور ناقابل تغیر ہے، البتہ مبادیاتِ زناکی تعزیراً کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ جسٹس محمد تقی عثمانی اور جماعت الدعوۃ کے مفتی عبدالرحمن رحمانی نے اس کی یہی توجیہ کی ہے۔ (’حدود قوانین؛ موجودہ بحث‘ از جسٹس تقی عثمانی ص ۲۹، اورمجلۃ الدعوۃ: جولائی ۲۰۰۶ء، ص۱۱ )
٭ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے الفاظ میں:’’جدید کریمنل جورسپروڈنس میں ’اوتو فواس ایکوٹ‘ کا عام اُصول ہے یعنی اگر شہادت کی روشنی میں جرم ثابت نہ ہو تو ا س جرم سے بری کئے گئے ملزم کو اسی شہادت کی بنا پر دوبارہ ملزم گردان کر اور قسم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔‘‘ (’زنا آرڈیننس کا تنقیدی جائزہ ‘: ص۸)
حدود قوانین پر یہ اعتراض جدید اُصولِ قانون کی روشنی میں ہے۔ اوّل تو یہ گنجائش اسی قانون میں موجود ہے نیزاسلامی شریعت کے احکام اور ان کے نفاذ کا طریقہ جدید مغربی قانون سے مختلف ہے۔ مثلاً جدید قانون کی رو سے جرمِ زنا ثابت نہ ہونے پر تہمت لگانے والے پر از خود قذف کی کاروائی شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے الگ سے قذف کا کیس کرنا پڑے گا، جبکہ اسلام کی رو سے دوسرے کیس کی ضرورت نہیں بلکہ قاضی کو خود ہی اس تادیبی کاروائی کو اختیار کرلینا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ پر تہمت لگانے والوں کے خلاف از خود قذف کی کاروائی کردی۔(دیکھیں حاشیہ صفحہ نمبر۲۱) البتہ اس سقم کی وجہ حدود قوانین کی بجائے ہمارے ہاں مروّجہ مغربی نظامِ عدل کیہے کہ زیربحث قانونی دفعہ کی سماعت پر ہی کیس ختم ہوجاتا ہے او ردوبارہ نیا کیس داخل کرنا پڑتا ہے لیکن اسے حدود قوانین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ ہردو قوانین کے مقصد اور طریق کار میں فرق ہے۔ اسلامی قانون ’حقیقی انصاف‘Real Justiceکا داعی ہے اورمغربی قانون ’ضابطہ جاتی انصاف‘ Formal Justiceکا۔