کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 8
مجوزہ ترامیم پرتبصرہ اور مُضمرات پہلی مجوزہ ترمیم بہ سلسلہ سزا زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی سزاؤں میں تفریق یعنی زنا بالجبر کے لئے سزائے موت یا ۲۵ سال قید اور زنا بالرضا کے لئے تعزیراتِ پاکستان میں موجود قانون کی بحالی تبصرہ:حدود اللہ:اسلام کی رو سے زنا بالجبر ہو یا زنا بالرضا، ہردو صورت میں زنا ہونے کے ناطے یہ سنگین ترین جرم ہے۔ کم از کم مرد کی حد تک تو اس جرم میں کوئی فرق نہیں البتہ زنا بالجبر کی صورت میں محض عورت کے اپنے بیان اور قرائن سے اس کی شہادت ملنے پر اس کو نہ صرف بری کردیا جائے گا بلکہ اس کے حق ِعصمت میں دخل اندازی کی بنا پر زنا بالجبر کے مجرم پر اس کا مہر مثل٭بھی عائد کیا جائے گا اور حکومت ِوقت بھی اس کی دلجوئی کے مختلف ذرائع اختیار کرے گی۔ چونکہ مغرب کے ہاں زنا کی دو قسمیں اور دونوں کے علیحدہ احکام ہیں ، اس لئے یہ تقسیم ہی مغربی طرزِ فکر کی آئینہ دار ہے جبکہ اسلام نے عورت کے لحاظ سے زنا کی دو اقسام بنانے کی بجائے اسے فریقین کی ازدواجی حیثیت کے لحاظ سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں تقسیم ٭کیا ہے، غیر شادی شدہ ٭ موطأ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے زانی پر مجبور کی جانے والی عورت کا حق مہر عائد کیا۔(رقم: ۱۲۱۸) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک شخص نے جبراً عورت سے زنا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے زانی پر حد لگانے کے علاوہ اسے عورت کی ثلث دیت ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔(مصنف عبد الرزاق: ۱۳۶۶۳) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ موقف ہے کہ کنواری سے زنا بالجبر کی صورت میں اسے کنواریوں کا مہر مثل اور شادی شدہ سے زنا بالجبر کی صورت میں شوہر دیدہ کا مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔(ایضاً: ۱۳۶۵۷) امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جبر کی صورت میں زانی پر مہر ادا کرنے کا حکم لگایا ہے۔ البتہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جبر کی علامت یہ ہے کہ عورت چیخ وپکار کرے (ایضاً: ۱۳۶۵۶) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ مہر متاثرہ عورت کو ہی ادا کیا جائے گا۔ (المغنی: ۷/ ۳۹۶) مزید دیکھئے : المغنی: ۱۲/۱۷۱، ۳۴۷،۳۴۸ اور۳۶۰ ، طبع مؤسسۃ ہجر، قاہرہ ٭ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں زنا بالجبر کے لئے کوئی مستقل اصطلاح بھی نہیں ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کے لئے اغتصاب المرأۃکی اصطلاح پیش کی ہے جبکہ یہ ترکیب ’بطورِ اصطلاح‘ بالکل اجنبی ہے اورقرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ کی بنیادی کتب میں اس اصطلاح کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔