کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 78
٭ رابطہ کونسل کے نگران مولانامحمد شفیق مدنی نے فرمایا کہ سب سے پہلے تو رابطے کی تکمیل ضروری ہے۔کسی بھی مشن میں رابطہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جب تک ہر رکن ذاتی دلچسپی سے اس کام کو نہیں کرے گا، یہ کام نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ طلبہ میں رغبت و طلب کے حوالے سے اُنہوں نے فرمایا کہ عدمِ رغبت کی وجہ اصلاً تو اساتذہ ہی ہیں ، اگر اساتذہ مخلصانہ کوششیں کریں اور معاشرے کے مسائل اور عہد ِحاضر کے فتنوں سے طلبہ کو آگاہ کریں اور ان کی ایمانی ذمہ داریوں کو اجاگر کریں اورتوجہ دلائیں کہ اصل شے اسلامی روح اور اسلامی شعائر کو اختیار کرنا ہے اور ہماری اصل قوت اسلامی اقدار کو عملاً اپنے اور دوسروں پر لاگو کرنے میں ہے تو بجا طور پر ان میں رغبت وطلب بڑھ سکتی ہے۔ اس کی ضرورت کو بہتر بنانے کے لئے اُنہوں نے فرمایا کہ مدارس میں تدریسی مضامین میں جدید ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ مضامین کا اضافہ کرنا چاہیے اور طلبا کو ان کی صلاحیت کے مطابق تیار کیاجائے اور پھر اُنہیں عملی میدان مہیا کیاجائے۔ ٭ اس کے بعد حافظ عبدالوحید صاحب نے ایک دقیق سوال اُٹھایا کہ آخر وہ مرکزی دھارا کیاہے جس سے ہم دور نکل رہے ہیں ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شیخ الجامعہ نے فرمایا: مرکزی دھارے سے مراد وہ مقتدر طبقہ ہے جوہمارے معاشرے کا رخ موڑنے میں کردار ادا کرتا ہے۔جن کا اپنا مالی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام ہے جس میں وہ اپنے افراد کو کھپاتے ہیں ۔ ہمیں بھی اپنے مدارس ومراکز میں اُنہیں چیلنجز کو سامنے رکھ کر ہر طبقہ کے لئے افراد کو تیار کرناہے اور اس وقت ایک ایسا دھارا، نظم اور معاشرہ تشکیل دینے کی شدید ضرورت ہے جو اسلامی ثقافت کا آئینہ دار ہو۔ ہمیں اپنے کام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کی اہمیت وافادیت پر مطمئن رہنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حصر کے ساتھ فرمایا: (( إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا)) ہم ایک مثالی نظام کے انتظار میں کچھ کر نہ سکیں تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ کام کا آغاز کر دیا جائے اور اس کیلئے اصل بنیاد تعلیمی ادارہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے عبرانیہ یونیورسٹی سے اپنے کام کا آغاز کیا اور آغا خانیوں نے میڈیکل کالج سے اپنا کام شروع کیا ۔ اس کے بعد راقم نے اپنی رائے پیش کی اگر ہم اپنے کام پر اعتماد کر لیں اور قابل افراد تیار کرلیں تو یہی سب سے بڑی قوت ہے۔ اللہ کے بعد اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس قوت کو فروغ دینا چاہیے اور تعلیم ویسے بھی مسلسل جد وجہد کانام ہے جبکہ ابلاغ یک بارگی کسی چیز کو