کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 73
میں عورت کو راضی کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پورے قرآن و سنت کو نظر انداز کرکے، کسی ایک آیت سے مسئلہ نکالنا کوئی درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ یہ ساری قباحتیں اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں کہ تمام قوانین کے اوپر کم از کم قرآن و سنت کی چھتری قائم کردی جائے اور قرآن وسنت کے ماہر اور اجتہاد کی صلاحیت کے حامل ججوں کو اجتہاد کے ذریعے ان قباحتوں کو دور کرنے کا اختیار دیا جائے۔ سوال: میرا موضوع درحقیقت حدود آرڈیننس کی اہمیت، تقدس اور نفاذ ہے ۔اس کے نفاذ کا آپ نے بہترین حل تجویز کیا ہے کہ یہ آرڈیننس ہمارے لئے بہت بڑی غنیمت ہے۔ قرآن و سنت کے تحت اس میں ترمیم کی ضرورت ہو تو ترمیم کی جائے، نہ کہ اسے ختم کر دیا جائے۔ جواب: ترمیم و اصلاح کے باوجود بھی ہم اسے فائنل نہیں کہہ سکتے۔ اس میں تبدیلی کی گنجائش بہرحال رہے گی۔ سوال: ہاں پھر بھی فائنل نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اسے علما نے اپنے اجتہاد سے تیار کیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسے نافذ کیا گیا تھا جو کہ جمہوری حکومت نہیں تھی۔ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کسی فردِ واحد کا نافذ کردہ قانون نہیں تھا بلکہ ماہرین علما اور قانونی اداروں کی مشاورت سے تیار کیا گیا اور پھر رائے کے لئے اسے عوام کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔سپریم کورٹ نے اس کی منظوری دی جیساکہ پرویزمشرف کے اقدامات کو بھی سپریم کورٹ نے درست قرار دیا ہے۔ کل کو اگر کوئی کہے کہ یہ سب فردِ واحد کی طرف سے تھے لہٰذا سارے غلط ہیں ، اس طرح تو تمام قوانین تماشہ بن جائیں گے۔یوں بھی تین بار حدود قوانین میں ترمیم کے لئے تین بار اسمبلی میں بل پیش ہوا لیکن اسمبلیوں نے ا س میں ترمیم نہ کرکے گویا اس کی موجودہ حالت میں تصویب کردی۔ سوال: یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ حدود آرڈی نینس کے بارے میں یہ اکھاڑ پچھاڑ پرویز مشرف کی طرف سے ہو رہی ہے یا باہر سے کوئی فنڈز دیے جارہے ہیں ؟ جواب: جس چیز کے ہمارے پاس شواہد نہیں ، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن حدود آرڈیننس جس کی روح یہ ہے کہ اس کے ذریعے زنا پہلی بار ایک جرم قرار پایا ہے، اس کو ختم کرنے کے لئے جو انداز اختیار کیاجارہاہے، میڈیا کے زور پر اس کے خلاف نفرت کی جو فضا پیدا کی جارہی ہے، یہ انداز انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور یہی وہ انداز ہے جو