کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 71
ہے؟ بہرحال ان تمام مسائل کا حل قانون سازی کے جدید انداز کے نقطہ نظر سے یہ ہے کہ شریعت کے نام پر بنائے جانے والے ان قوانین کے اوپر قرآن و سنت کو نگران بٹھا دیا جائے۔ اس سے قانون میں جہاں کوئی سقم باقی رہ گیا ہے، وہ ایک حد تک دور ہوجائے گا جیسا کہ ہمارے جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا ہے۔ ان کے یہ الفاظ قابل ذکر ہیں کہ ’’حدود آرڈیننس کو قرآن کے مطابق بنایا جائے۔‘‘ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس آرڈیننس کی روح بہت مقدس ہے اور وہ رو ح یہ ہے کہ زنا بالرضا بھی بدکاری ہے اور بدکاری ناقابل معافی جرم ہے۔اس آرڈیننس سے پہلے کنواری، بیوہ، مطلقہ کسی عورت کے لئے بھی زنا بالرضا قابل گرفت جرم نہیں تھا۔ صرف خاوند اپنی بیوی کے خلاف کاروائی کرسکتا تھا اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر زنا کا ارتکاب کرتی۔ گویا بدکاری ایک بُرے فعل کے طور پر جرم نہیں تھی، بس خاوند کے حق میں حق تلفی کے طورپر جرم کے زمرے میں آتی تھی۔ سوال: کوئی اگر زنا کے الزام سے بری ہوجائے توکہتے ہیں کہ الزام لگانے والے پر حد لگائی جائے؟ لیکن عملاً یوں نہیں ہوتا بلکہ لوگ جھوٹے الزام کے بعد تہمت کی سزا سے بھی بچ جاتے ہیں ۔ جواب: ہاں ، اس پر حد قذف (بہتان طرازی کی حد) ہے جو علیحدہ آرڈیننس ہے۔ سوال: کیا حد ِزنا آرڈیننس میں حد ِقذف کا ذکرنہیں ہے ؟ جواب: نہیں ،اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ دراصل ہمارے ملک میں رائج قانونی نظام کا طریق کار یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں دوسرے مقدمہ کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کے لئے الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے، لہٰذا حد قذف کو قذف کے مقدمہ کے تحت سنا جائے گا۔ اس نظام کے تحت جب ایک کیس درج کرایا جاتا ہے تو پھر اسی الزام کی سماعت ہوتی ہے، دوسرے الزام کی سماعت کے لئے مستقل دوسرا کیس دائر کرنا پڑتا ہے، یہ خرابی حدود آرڈیننس کی بجائے ہمارے قانونی نظام کی ہے۔ سوال: کیا حد ِقذف واقعتا حد ِزنا آرڈیننس میں نہیں ہے؟ جواب: حدود آرڈیننس میں ہر حد کا قانون الگ الگ ذکر ہوا ہے۔ یہ دراصل پانچ آرڈی