کتاب: محدث شمارہ 302 - صفحہ 70
نافذ کر دیں اور ساتھ ہی یہ بھی قرار دے دیا کہ اگر فلاں تاریخ تک کوئی بنا ہوا قانون نہ آیا تو پھر قرآن وسنت کو اپنے اصل الفاظ میں لاگو سمجھا جائے گا۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی،لیکن انہی دِنوں بینظیر حکومت تبدیل ہو گئی۔یہ تفصیل ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قصاص ودیت کے قانون میں بھی ایسی دفعات موجود ہیں جن کے ذریعے اس آرڈیننس میں قرآن وسنت کو بالادستی دی گئی ہے۔لاہور ہائیکورٹ کا مذکورہ بالا فیصلہ ایسی بالادست دفعات کی روشنی میں ہی دیا تھا جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی رائے کو اختیار کیا ہے کہ عورتوں کو قصاص ودیت کے معاملات میں معافی کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ عورت فطری طور پر جذباتی اورنرم دل ہوتی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ اگر عورت کے سسرال کا کوئی فرد اس کے میکے کے کسی فرد کو قتل کردیتا ہے تو اس صورت میں مجبوراً اسے معاف کرنا پڑتاہے، اگرچہ وہ دل سے معاف نہیں کرنا چاہتی۔اس لئے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے قصاص کی معافی کا حق مقتول کے صرف ان رشتہ داروں کو دیا ہے جو خاندان میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں علم وراثت کی اصطلاح میں عصبہ کہا جاتا ہے، مثلا ًبھائی، بیٹا، باپ، داداوغیرہ
سوال:یہاں پھر عورت کے حقوق کامسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لوگ تو پہلے اس بات پربھی معترض ہیں کہ عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے، پوری کیوں نہیں ؟
جواب: دیکھیں !قانون کا مقصد مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔کسی کو خوش کرنا اصل مقصود نہیں ہوتا، پھر یہ عورت کے حقوق کا مسئلہ نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے تو اگر عورت قتل ہوجائے تو خاوند کو بھی اس کا قتل معاف کرنے کا حق نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ موت کے بعد خاوند بیوی کا رشتہ منقطع ہوجاتاہے۔اس بنا پر زوجین کوباہم ایک دوسرے کے قصاص کومعاف کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اس کے پیچھے بہت بڑی مصلحت ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ قانون سازی کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔ قانون سازی کا مقصد مسائل کو حل کرنا ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کی خوشی کے مطابق فیصلے ہونے لگیں تو پھر بچیوں کو آوارگی کے خارستان سے کون بچائے گا؟ وہ خاندان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا کر جہاں چاہیں گی، گھومیں گی اور پھر ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ والدین کو سوچنا چاہئے کہ ان کی اولاد کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی